فلسطینی مزاحمتی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت – حماس- نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں ناکامی کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کی تحویل میں صہیونی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کو اسرائیلی شرائط پر رہا نہیں کیا جائے گا۔ جمعہ کے روز حماس کے ترجمان سامی ابو زھری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ چار سال تک اسرائیلی فوجی کو حراست میں رکھنا اس امر کا ثبوت ہے کہ حماس کا سیکیورٹی کا نظام نہایت مضبوط ہے، اسرائیل تمام تر طاقت کے استعمال اور انٹیلی جنس کے ذریعے گیلاد شالیت تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔ دوسری جانب دمشق میں حماس کے سیاسی شعبے کے رکن اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ حماس کے ہاں قید اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو حماس کی قیدیوں کے حوالے سے تیار کردہ فہرست کے مطابق ہی رہا کیا جائے گا اور حماس اس فہرست میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گی۔ حماس کے راہنماء نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کی کوششیں سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کے دور سے جاری ہیں تاہم ان میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں حماس نے ہر ممکن لچک کا مظاہرہ کیا تاہم اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باعث کسی ملک کی ثالثی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ گیلاد شالیت کی چار سالہ قید پر سرگرمیاں دوسری جانب مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کی جانب سے جمعہ کے روز گیلاد شالیت کی گرفتاری اور قید کے چار سال مکمل ہونے پر مختلف سطح کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ جمعہ کے روز مقبوضہ بیت المقدس میں ایک موٹر سائیکل ریلی بھی نکالی گئی جس میں 100 موٹر سائیکل سواروں نےگیلاد شالیت کی تصاویر اٹھا کر گیلاد شالیت کی اسیری کی یاد تازہ کی۔ اس کے علاوہ بیت المقدس میں یہودیوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک یادداشت بھی جمع کرائی گئی جس میں گیلاد شالیت کی رہائی کو چار سال مکمل ہونے پر قید فوجی کی رہائی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ 25 جون 2007ء کو غزہ میں دراندازی کے دوران حماس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیلی فوجی دستے پر حملے کر کے دو فوجیوں کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کر لیا تھا۔ صہیونی فوجی کی گرفتاری کے بعد اسے چھڑانےکے لیے اسرائیل نے دسمبر2008ء اور جنوری 2009ء کے درمیان بائیس روز تک غزہ پر وحشیانہ جنگ مسلط کیے رکھی، تاہم اس کے باوجود فوجی کو رہا نہیں کرایا جا سکا، اس کے علاوہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں مصر اور جرمنی ثالثی کی کوششیں بھی کر چکے ہیں تاہم اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور غیر لچک دار رویے کے باعث یہ معاہدہ کامیاب نہیں ہو سکا۔