غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی پٹ جہاں ہر سُو موت کا سایہ ہے، جہاں کھنڈرات میں بچوں کی چیخیں گونجتی ہیں، وہاں اب بمباری سے زیادہ ظالم بھوک بن چکی ہے۔ اب بچوں کو گولی نہیں مارتی، بلکہ بھوک انہیں خاموشی سے نگل رہی ہے۔ ماں کی گود میں پلنے سے پہلے ہی ننھے جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں۔ یہاں بچوں کا دودھ خواب نہیں، بلکہ زندگی کی آخری امید ہے جو یا تو تحفے میں آتا ہے، یا اسمگل ہوتا ہے، مگر بازار میں دستیاب نہیں۔
ناصر ہسپتال… جہاں معصوم سانسیں دم توڑتی ہیں
خان یونس کے ناصر ہسپتال میں چلڈرن وارڈ اب ایک ہسپتال نہیں بلکہ اجتماعی قبر جیسا منظر پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ دہائیوں کی بدترین انسانی المیہ ہے۔
ڈاکٹر احمد الفرا، وارڈ کے انچارج، کانپتی آواز میں کہتے ہیں۔ہمارے پاس موجود دودھ چند دنوں کا ہے۔ بچے ہمارے سامنے مرتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سوائے آنکھوں میں آنسو لیے دیکھتے رہنے کے”۔
اور سب سے دردناک بات یہ کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے مخصوص دودھ مکمل ختم ہو چکا ہے۔ مجبوراً عام دودھ دیا جا رہا ہے، جو ان کے نازک جسموں کے لیے زہر سے کم نہیں۔
وہ آہیں بھرتے ہوئے کہتے ہیں “یہ علاج نہیں یہ طبی قتل عام ہےیہ وہی ظلم ہے جس کے خلاف انسانیت چیختی ہے، مگر یہاں کوئی چیخ سنتا ہی نہیں”۔
بھوک میں تڑپتی مائیں بےآواز مرتے بچے
نصیرات کیمپ کی ہناء الطويل پانچ بچوں کی ماں ایک پھٹی چادر پر بیٹھی ہے۔ اس کی گود میں موجود بچہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی سایا ہو، جس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ رہی ہو۔
وہ سسکیوں میں کہتی ہے “میرے جسم میں دودھ کہاں سے آئے؟ میں خود بھوکی ہوں۔ کیا دوں اسے؟ صرف ایک خشک روٹی میرے پاس ہے، جو رات کو اس کے رونے کا جواب بنتی ہے”۔
اس کا بیٹا چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے۔ اس کے چہرے پر ہڈیوں کا خاکہ بن چکا ہے اور ماں کی آنکھوں میں صرف خوف، بھوک اور بےبسی لکھی ہے۔
اعداد و شمار نہیں، درد کی زبان ہے
غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک 66 بچے بھوک کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہر دن 112 سے زائد بچے غذائی قلت کے باعث ہسپتال پہنچتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے ان اعداد کی تصدیق کی ہے۔
ڈاکٹر ثائر احمد جو “آفاز” تنظیم کے ذریعے امداد لانے کی کوشش کر رہے ہیں چیخ اٹھے۔”یہ خوراک کا مسئلہ نہیں، یہ منظم قتل عام ہے۔ بچوں کو ہتھیار نہیں، بھوک سے مارا جا رہا ہے”۔
وہ انتباہ کرتے ہیں۔”یہ نسل کشی ہے۔ دنیا خاموش رہی تو تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی”۔
دودھ کی اسمگلنگ… ایک ناقابلِ یقین جنگ
فلسطینی نژاد جرمن سرجن ڈاکٹر دیانا نزال آنکھوں دِکھا منظر سناتی ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج نے ایک امریکی رضاکار ڈاکٹر کے بیگ سے بچوں کے 10 دودھ کے ڈبے چھین لیے۔
وہ حیرت سے سوال کرتی ہیں۔”دودھ کے ڈبے سے خوف؟ کیا خطرہ ہے بچوں کے دودھ میں؟”
وہ غم و غصے سے کہتی ہیں۔”یہ مکمل دیوانگی ہے۔ دودھ کو بم سمجھا جا رہا ہے اور بچوں کو بھوک میں تڑپنے دیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے، جہاں دشمن ایک دودھ پیتا بچہ ہے؟”۔
بلیک مارکیٹ میں امید بھی مہنگی ہو گئی
غزہ میں اب بچوں کے دودھ کی ایک ڈبی تقریباً 50 ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے ۔ یعنی عام قیمت سے دس گنا زیادہ۔ یہ وہ قیمت ہے جو ایک پناہ گزین ماں کے بس سے باہر ہے۔
خانیونس میں بےگھر نورہان برکات کہتی ہے۔”میرے جسم میں کچھ نہیں بچا، میں اپنی بچی کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ جب وہ روتی ہے، میں بھی خاموش ہو کر روتی ہوں، کیونکہ میرے پاس اسے دینے کو کچھ نہیں”۔
اقوامِ عالم خاموش تماشائی… بچے ایندھن بن گئے
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ کے محاصرے کو کھلی نسل کشی کا حربہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل دانستہ طور پر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
مگر اس کے باوجود، غزہ میں صرف 50 ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں، جب کہ کم از کم 500 ٹرکوں کی روزانہ ضرورت ہے۔یہ بھی اکثر راستے میں لوٹ لیے جاتے ہیں یا قبضے میں لے لیے جاتے ہیں، رحم و کرم کی امید بھی راستے میں دم توڑ دیتی ہے۔
آخری چیخ۔اگر آج نہ جاگا جہاں، تو کل مر جائے گا ایک پورا زمانہ۔ڈاکٹر احمد الفرا نم آنکھوں سے کہتے ہیں کہ”یہ نسل نشانہ ہے۔ اگر دودھ واپس بھی آ جائے، تو نشوونما واپس نہیں آئے گی۔ اگر جنگ رک بھی جائے، تباہی باقی رہے گی”۔
وہ کانپتے لہجے میں انتباہ دیتے ہیں۔”اگر دنیا نے آج مداخلت نہ کی۔ تو کل ہم صرف بچوں کی لاشیں شمار کریں گے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں۔”