Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ :الباقہ کیفے میں نہتے لوگوں پر ایم کے -82 بم سے حملہ،عالمی نظام کے ماتھے پربدنما دھبہ!

غزہ    (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) یہ وہ جگہ تھی جہاں سمندر کی ہوا میں کافی کی خوشبو گھلتی تھی، جہاں زندگی تھوڑی دیر کو سانس لیتی تھی۔ لیکن پھر ایک لمحے میں سب کچھ بدل گیا۔ آسمان پر اُبھرتا سیاہ دھواں، چیخیں، لاشیں، خون، اور وہ اذیت ناک خاموشی جو صرف موت کے بعد ہی طاری ہوتی ہے۔ قابض اسرائیل کی درندگی نے ایک اور بار ثابت کر دیا کہ غزہ میں کوئی بھی، کہیں بھی، کبھی بھی محفوظ نہیں۔ بچے، نہ مائیں، کیفے، نہ ساحل، نہ زندگی۔

پیر کی شام جب غزہ کے باسی زندگی سے جڑی کچھ باقی سانسیں کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کچھ خاندان “الباقہ” نامی کیفے میں چند لمحے سکون کے گزارنے کی تمنا لیے بیٹھے تھے تبھی قابض اسرائیل کی جنگی طیاروں نے امریکہ میں تیار کیا گیا خوفناک MK-82 بم اس دو منزلہ لکڑی کے کیفے پر گرا دیا۔ ایک ہی لمحے میں 34 سے زائد زندگیاں مٹ گئیں۔ کچھ نہ بچا، سوائے راکھ، لہو اور ایک ایسی یاد کے، جو ہمیشہ رُلائے گی۔

یہ بم جنگ کے لیے تھا، زندگی چھیننے کے لیے نہیں

برطانوی اخبار “گارڈین” اور بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ بم دراصل سخت فوجی ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر قابض اسرائیلی فوج نے اسے بچوں، عورتوں، اور بوڑھوں سے بھری ایک عوامی جگہ پر گرایا۔ علاقے میں نہ کوئی فوجی سرگرمی تھی، نہ کوئی خطرہ ۔ صرف معصوم چہرے تھے جو ایک لمحے کو ہنسنا چاہتے تھے۔

دھماکہ اس قدر خوفناک تھا کہ زمین پھٹ گئی۔ نچلی منزل ملبے میں دفن ہو گئی، کھڑکیاں چکناچور ہو کر دور جا گریں اور وہ چھتیں جن کے نیچے بیٹھ کر لوگ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

شہداءجو صرف فلسطینی تھے

ان شہداء کا کوئی جرم نہیں تھا۔ وہ صرف فلسطینی تھے، اسی لیے بے رحمی سے مار دیے گئے۔

ایک چار سالہ بچہ جس کے والدین ایک ہفتہ پہلے ایک اور بمباری سے بچ نکلنے پر شکر ادا کر رہے تھے، اب خاموش پڑا ہے۔ ایک خاتون جو غروب آفتاب کی تصویر لینے نکلی تھی خود تاریکی میں ڈھل گئی۔ ایک فلم ساز، جو محاصرے کی زندگی پر فلم بنا رہا تھا، خود اس فلم کا کردار بن گیا ، آخری اور ابدی کردار۔

زخمیوں کی حالت بھی کسی اذیت سے کم نہیں۔ ایک بارہ سالہ بچی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئی، ایک چودہ سالہ لڑکا زندگی کی آخری لکیر پر ہے اور اس کے والدین ملبے تلے اپنے چھوٹے بیٹے کی لاش ڈھونڈ رہے ہیں۔

قانون بےبس، انصاف خاموش

بین الاقوامی قوانین چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ایسا بم شہری آبادی پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن قابض اسرائیل کو کون روکے؟ یونیورسٹی آف ڈبلن کے ڈاکٹر اینڈریو فورڈ نے کہاکہ “یہ حملہ کھلی درندگی اور قانون کی تذلیل ہے۔ جو بھی یہ کہے کہ اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ بم درجنوں معصوموں کو مارے گا، وہ جھوٹ بول رہا ہے”۔

کوبن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسر مارک شاک نے اس بمباری کو “مجرمانہ قتلِ عام” قرار دیا اور کہا کہ عالمی سطح پر اس کا احتساب ناگزیر ہے۔

زخم بڑھتے جا رہے ہیں، دنیا خاموش ہے

“الباقہ” پہ حملہ نہ پہلا ہے، نہ آخری۔ اس سے پہلے ہسپتال تباہ کیے گئے، سکولوں پر بم برسائے گئے۔ بچوں کی روٹی پکانے والی نانبائیاں نشانہ بنیں، پناہ گزین کیمپ ملبہ بنے۔ ہر بار وہی کہانی، وہی جھوٹ، وہی مجرمانہ خاموشی۔

لیکن اس خاموشی کو چیرتی ہے ایک چیخ۔کسی یتیم بچی کی جو اپنی ماں کو آواز دیتی ہے، یا کسی نوجوان کی جو اجتماعی قبر کی تصویر کھینچتے ہوئے خود ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ چیخیں صرف غصے کی نہیں۔ یہ انسانیت کی موت کا اعلان ہیں۔

کیفے سے عالمی عدالت تک کون لے گا یہ درد؟

“الباقہ” پر ہونے والا حملہ ایک کیفے پر بمباری نہیں بلکہ انسانیت پر حملہ ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے کاغذی ضمیر پر ایک اور سیاہ دھبہ ہے۔ یہ اس نام نہاد قانون پر تھپڑ ہے، جو صرف طاقتوروں کی ڈھال اور مظلوموں کی زنجیر بن چکا ہے۔

اگر ان جرائم پر مقدمہ نہ چلا، اگر ان ریاستوں کو جواب دہ نہ بنایا گیا جو قابض اسرائیل کو تحفظ دیتی ہیں تو کل کوئی اور کیفے، کوئی اور سکول کوئی اور خواب ملبے تلے دفن ہوگا۔

اور غزہ کی فضاؤں میں ایک بار پھر وہی سناٹا گونجے گا،جو بتاتا ہے کہ یہاں امید بھی جرم ہے

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan