غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) جمعرات کی صبح قابض اسرائیلی فوج نے ایک اور انسانیت سوز درندگی کا ارتکاب کرتے ہوئے غزہ شہر کے مغربی علاقے میں واقع مصطفی حافظ سکول کو جنگی طیاروں سے نشانہ بنایا، جہاں سینکڑوں بےگناہ فلسطینی شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔
اس اندوہناک واقعے میں کم از کم 16 نہتے فلسطینی شہید جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوگئے، جنہیں تشویشناک حالت میں الشفاء ہسپتال منتقل کیا گیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق، شہید ہونے والوں میں سے 13 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان حجیلہ خاندان سے تھا۔ ان کی شناخت احمد ایاد حجیلہ، صقر احمد حجیلہ، یزن حسن حجیلہ، شام محمد حجیلہ، خالد محمد حجیلہ، آدم محمد حجیلہ، ضحی حجیلہ (عبده)، طارق صقر حجیلہ، دینا صقر حجیلہ، محمد بکر صقر حجیلہ، ایاد صقر حجیلہ، لین صقر حجیلہ اور اکتمال حسن حجیلہ کے ناموں سے کی گئی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی بمباری اتنی شدید اور وحشیانہ تھی کہ بیشتر شہداء کی لاشیں ناقابل شناخت ہو چکی تھیں۔ ان کے جسم جل کر خاکستر ہوگئے، اور کئی کے اعضا سکول کی دیواروں اور زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ یہ منظر ایک دل دہلا دینے والی قیامت سے کم نہ تھا۔
ایک فلسطینی ماں جو اس المناک سانحے میں زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ گئی نے بتایا کہ سکول کے اندر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس نے کہاکہ”ہم سب اس سکول میں پناہ لیے ہوئے تھے، بچے، عورتیں، بوڑھے سبھی۔ اچانک زور دار دھماکوں سے عمارت لرز اُٹھی، اور ہر طرف آگ، چیخ و پکار اور دھواں پھیل گیا۔ میرے بچے میری آنکھوں کے سامنے بکھرتے چلے گئے۔ یہ کوئی جنگ نہیں، یہ تو نسل کشی ہے”۔
قابض اسرائیل کی جانب سے سکولوں، ہسپتالوں اور پناہ گزینوں کی پناہ گاہوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن ہر بار یہ حملے فلسطینی قوم کے عزم کو کمزور کرنے کے بجائے ان کے جذبہ آزادی کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
یہ واقعہ عالمی برادری، انسانیت کے دعوے دار اداروں، اور اقوام متحدہ کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے کہ وہ آخر کب تک اس درندگی پر خاموشی اختیار کریں گے؟ کب تک نہتے فلسطینیوں کا خون بہایا جاتا رہے گا؟ اور کب تک معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے بچھائے جاتے رہیں گے۔