قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی مجلس قانون ساز کے تین ارکان اور ایک سابق وزیر کو مقبوضہ بیت المقدس سے نکالنے کےفیصلے کے خلاف مسجد اقصی میں نماز جمعہ کے بعد ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سیکڑوں نمازیوں نے شرکت کی۔ نماز جمعہ کے بعد جیسے ہی مارچ شروع ہوا شرکاء مسجد اقصی کے صحن میں جمع ہو گئے۔ مظاہرین نے اراکین پارلیمان کی تصاویر، جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ بینرز پر القدس کو یہودیانے کی کوشش کے خلاف نعرے درج تھے۔ اسی طرح مظاہرین نے فلسطینی پارلیمنٹیرینز کا ساتھ دینے اور ان کی القدس سے بے دخلی کے صہیونی فیصلے کے خلاف عبارات پر مشتمل بینرز بھی اٹھا رکھے تھے اس موقع پر مسجد اقصی کے خطیب مفتی شیخ محمد حسین نے نماز جمعہ کے خطبے میں صہیونی فیصلے کو ظالمانہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ مسجد اقصی کے خطیب کا کہنا تھا کہ القدس شہر، بستان کالونی اور شیخ جراح کالونی میں صہیونی مذموم کارروائیوں کا اصل مقصد بیت المقدس کے اصل باشندوں کو ان کے شہر سے نکالنا اور اس شہر کو یہودی شناخت میں رنگنا ہے۔ شیخ حسین نے اس نازک موقع پر فلسطینی قوم کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد واتفاق کی بنیادیں واضح ہیں۔ ان کا دین ایک، رب ایک، قران ایک اور رسول ایک ہے۔ چنانچہ ان میں اتفاق ہونا چاہیے۔ انہوں نے ساری عرب اور اسلامی دنیا سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب مسجد اقصی کے جنوب میں سلوان نامی علاقے میں ایک دوسرا احتجاجی مظاہرہ ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے فلسطینی شہریوں اور اسرائیلی فوج کے مابین جھڑپ میں تبدیل ہو گیا۔ یہاں پر بھی فلسطینی مسلمان بستان کالونی کے صمود کیمپ میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے کہ اسرائیلی فوج نے مداخلت کر دی۔ اسی طرح ابوصلاح کے خاندان کے گھر کی زمین پر قبضے کی کوشش کرنے والے غاصب یہودیوں کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپ ہوئی۔ یہودیوں نے ابو صلاح کے گھر پر قبضہ کی کوشش کی مگر فلسطینی نوجوانوں نے ان کی کوشش ناکام بنا دی۔