غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے جاری نسل کشی میں شہداء اور زخمیوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 191,604 ہو گئی ہے۔ اس ہولناک سلسلے کا آغاز 7 اکتوبر سنہ2023ء سے ہوا تھا جس میں اور اب تک 57,012 فلسطینی شہید جبکہ 134,592 شدید زخمی ہو چکے ہیں۔
وزارت صحت نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے روزانہ اعداد و شمار میں بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 142 نہتے فلسطینی شہری شہید کیے گئے جبکہ 487 زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ کے ہسپتال پہلے ہی طبی سامان کی شدید قلت، عملے کی کمی اور مسلسل بمباری کے باعث بدترین بحران کا شکار ہیں۔
قابض اسرائیلی فوج کی درندگی کا ایک اور مکروہ پہلو وہ قتل عام ہے جو جعلی “انسانی امداد کی تقسیم” کے مقامات پر کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان مقامات پر قابض فوج کی فائرنگ سے اب تک 640 فلسطینی شہری شہید اور 4,488 شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک دن میں 39 شہداء اور 210 سے زائد زخمی ہسپتالوں میں لائے گئے۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 مارچ سنہ2025ء سے اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 6,454 اور زخمیوں کی تعداد 22,551 ہو چکی ہے۔ ان اعداد و شمار کو شامل کرنے کے بعد مجموعی طور پر شہداء اور زخمیوں کی تعداد 191,604 ہو گئی ہے۔
وزارت صحت کے مطابق ان شہداء میں سے 223 افراد وہ ہیں جن کے مکمل کوائف حاصل کر کے متعلقہ عدالتی کمیٹی نے ان کے شہید ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ اب بھی متعدد فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا سڑکوں پر بے یار و مددگار پڑے ہیں جہاں تک ایمبولینسوں اور ریسکیو ٹیموں کی رسائی قابض فوج کی بمباری اور سکیورٹی رکاوٹوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔
قابض اسرائیلی فوج نے 18 مارچ سنہ2025ء کو ایک بار پھر غزہ میں اپنی نسل کش جنگ کو اس وقت شدید تر کر دیا جب اس نے یکم مارچ کو طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد غزہ پر مکمل محاصرہ نافذ کرتے ہوئے نہ صرف طبی اور غذائی امداد کو روکا گیا بلکہ وحشیانہ بمباری کو بھی مزید تیز کر دیا گیا۔
یہ تمام درندگی اس وقت انجام دی جا رہی ہے جب اسلامی تحریک حماس معاہدے کے تمام نکات پر عمل پیرا تھی، مگر قابض ریاست کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے اپنی انتہا پسند حکومت کو خوش کرنے کے لیے معاہدے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ نیتن یاھو صرف اسی مقصد میں دلچسپی رکھتا تھا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے کو طول دے کر اپنے قیدیوں کو بازیاب کرا لیا جائے، جبکہ دوسرے مرحلے میں مکمل جنگ بندی اور غزہ سے فوجی انخلاء طے تھا، جسے وہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔