نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ غزہ میں زندہ رہنے کے لیے درکار بنیادی امدادی حالات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ صہیونی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں نہ صرف روزگار اور بنیادی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں بلکہ پناہ لینے کی جگہیں بھی محدود تر ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ وارننگ اقوام متحدہ کی جانب سے بدھ کے روز اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں دی گئی، جس میں سنہ2023ء سے جاری اسرائیلی مظالم کے تسلسل میں اتوار کے بعد سے ہونے والی تازہ خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق وہ درجنوں فلسطینی خاندان جو حالیہ دنوں میں صہیونی بمباری کا نشانہ بننے والے سکولوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، اب دوبارہ شمالی غزہ کی جانب لوٹنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس مجبوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں متبادل رہائش، خوراک یا زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کہیں اور دستیاب نہیں ہیں۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران شمالی غزہ میں پانچ تعلیمی عمارتیں، جن میں جبری طور پر بے گھر ہونے والے خاندان پناہ لیے ہوئے تھے، صہیونی بمباری کی زد میں آئیں۔ اس درندگی کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید و زخمی ہوئے۔
قابض اسرائیلی فوج مسلسل غزہ کے مختلف علاقوں میں فوری انخلاء کے انتباہات جاری کر رہی ہے۔ ان انتباہات کے فوراً بعد بمباری کر کے ان علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں کے نکلنے سے قبل ہی بمباری شروع کر دی گئی، جس کا نتیجہ وحشت ناک انسانی المیے کی شکل میں سامنے آیا۔
قابض اسرائیل نے حالیہ دنوں میں غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں بمباری کے ساتھ ساتھ انخلاء کے احکامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔ یہ تمام کارروائیاں اس کی نام نہاد فوجی مہم “عربات جدعون” کے تحت کی جا رہی ہیں، جس کا مقصد بقول صہیونی حکام “حماس کے خلاف جنگ کا فیصلہ کن اختتام اور فلسطینیوں کی جبری ہجرت کو عملی جامہ پہنانا ہے”۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان انخلاء کے بعد قابض اسرائیلی افواج نے اب تک غزہ کی پچتر فیصد سے زائد زمین پر قبضہ جما لیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے وسط اور مشرق میں رہنے والے باشندوں کو مغرب اور پھر جنوب کی طرف مواصی کے علاقے میں جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق قابض اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں درجنوں مرتبہ اسی نوعیت کے انخلاء کے احکامات جاری کیے، جس کے نتیجے میں غزہ کی زمین کا محض اٹھارہ فیصد حصہ ہی فلسطینیوں کے لیے باقی بچا ہے۔
بیان میں اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک کا کہنا ہے کہ “اتوار کے بعد جاری ہونے والے انخلاء کے حکم کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں شدید اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث شمالی غزہ اور مشرقی علاقے سے کم از کم 1500 فلسطینی خاندان مزید بے گھر ہو چکے ہیں۔”
دوجاریک نے متنبہ کیا کہ انسانی امداد میں کمی اور بنیادی خدمات کے خاتمے کے باعث غزہ کے رہائشی تیزی سے زندگی کے وسائل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، “غزہ کی موجودہ صورتحال ایک سنگین انتباہ ہے، جو فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ تمام سرحدی راستے کھولے جائیں اور انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔”
واضح رہے کہ سنہ2023ء کے 7 اکتوبر سے قابض اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی میں غزہ میں بدترین نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔ یہ نسل کشی قتل عام، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت پر مشتمل ہے، جو نہ صرف عالمی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ چکی ہے بلکہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کو بھی صہیونی ریاست مسلسل نظرانداز کر رہی ہے۔
اب تک جاری اس وحشیانہ مہم میں 191 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 11 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، جبکہ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں، سکولوں اور زندگی کے تمام وسائل سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں۔