غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی سرزمین پر صرف بمباری اور بارود ہی نہیں، بھوک بھی قاتل ہے۔ جس وقت فضاؤں میں دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے، اسی وقت بھوکے بچوں کی چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ایسا منظرنامہ ہے جہاں جنگ اور محاصرہ مل کر ظلم کی داستان رقم کرتے ہیں اور عالمی بے حسی اس درندگی کا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اب بھوک صرف ایک انسانی المیہ نہیں رہی، بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی جنگی حکمتِ عملی بن چکی ہے۔ ایسی بزدلانہ حکمتِ عملی جو جسم سے پہلے روح کو نشانہ بناتی ہے، اور پیٹ سے پہلے عزتِ نفس کو روندتی ہے۔
ایک نسل جو بھوک کے بوجھ تلے کچلی جا رہی ہے
ماہرینِ نفسیات کے مطابق غزہ میں نفسیاتی تناؤ، ڈیپریشن اور ذہنی ٹوٹ پھوٹ کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، بالخصوص ان طبقات میں جو سب سے زیادہ کمزور ہیں: یعنی بچے اور خواتین۔
فرانسیسی اخبار “لوموند” سے بات کرتے ہوئے غزہ کی ایک نفسیاتی ماہر نے بتایاکہ “میں روزانہ ایسی ماؤں سے سنتی ہوں جو کہتی ہیں کہ ان کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے سوائے خشک روٹی یا چینی ملا پانی کے اور کچھ نہیں بچا۔ بچے زاروقطار روتے ہیں، کچھ تو بولنے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں۔ ایک پوری نسل نفسیاتی طور پر تباہ ہو رہی ہے”۔
یہ بھوک صرف پیٹ کی بھوک نہیں، یہ روح کو روندنے والا عمل ہے۔ جب ایک باپ بے بسی سے اپنے بھوکے بچے کو روتا دیکھتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا تو اس کی غیرت کچلی جاتی ہے۔ جب ایک ماں آخری بچا کھچا کھانا پکاتی ہے اور کل کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو اس کی روح ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے خاندانوں کی عزتِ نفس بھی خاموشی سے دم توڑتی ہے۔
قابض اسرائیل کی پھیلائی اس قہر سامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزارتِ صحت کے مطابق اب تک بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے 66 بچے شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ اندازہ ہے کہ بھوک سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے نام کسی ریکارڈ میں درج نہیں ہو سکے۔
بھوک بطور فوجی ہتھیار
ماہرین کے مطابق اب بھوک کوئی حادثاتی نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم فوجی ہتھیار بن چکی ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطینی عوام کو جھکانے اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے دانستہ طور پر بھوک کو جنگی حکمت عملی میں شامل کر لیا ہے۔
اخبار “لوموند” نے اپنی رپورٹ کا اختتام ایک سیاہ اور تلخ نوٹ پر کرتے ہوئے لکھاکہ “امریکہ کی امداد یا بین الاقوامی اداروں کی کوششیں بظاہر قابض اسرائیل کے محاصرے یا بھوک کی پالیسی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ غزہ اس وقت ایک ایسی فوجی حکمت عملی کا قیدی بن چکا ہے، جہاں بھوک کو ایک نیا نقشہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، وہ بھی انسانوں کی زندگیوں کی قیمت پر”۔
جنگ کے پہلے دن سے ہی قابض اسرائیل نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ خوراک اور پانی سے محرومی کو بطور ہتھیار استعمال کرے گا۔ اسی منصوبے کے تحت اس نے فلور ملز، روٹی کے تنور، خوراک کی تقسیم کے مراکز اور تمام امدادی گزرگاہوں کو نشانہ بنایا اور بند کر دیا۔
بمباری اور قحط کے درمیان سسکتی غزہ
جب غزہ کی امدادی سپلائی لائنز تقریباً ختم ہو چکی ہوں، بنیادی سہولیات ناپید ہوں، تب بھوک محض ایک مصیبت نہیں بلکہ روزانہ کی بمباری المیہ بن جاتی ہے۔ ہر دن موت کی آہٹ لاتا ہے، ہر لمحہ جسمانی کمزوری اور ذہنی شکست کا پیغام ہوتا ہے۔ کوئی بھی اس عذاب سے بچ نہیں سکتا، اور نہ ہی کوئی اس کے اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
عالمی سطح پر قراردادیں، مذمتی بیانات اور “شدید تشویش” کا اظہار تو ہو رہا ہے، مگر زمین پر کچھ بھی نہیں بدلا۔ غزہ کے باشندے آج بھی ایک طرف اعلان شدہ قحط اور دوسری طرف سفاک بمباری کے درمیان پس رہے ہیں، اور دنیا صرف دیکھ رہی ہے۔
ایک معلق سوالِ انسانیت
اگر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال جنگی جرم ہے، تو کیا بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جرم نہیں؟ اگر کسی تباہی کی شدت لاشوں کی تعداد سے ناپی جاتی ہے، تو ان ہزاروں زندہ لاشوں کا کیا جو روز دم توڑتی ہیں مگر مرنے والوں کے کھاتے میں نہیں آتیں؟ غزہ آج صرف بمباری کا شکار نہیں، بلکہ دانستہ بھوک، اذیت، توہین اور سزا کا بھی شکار ہے۔ یہ اس دور کے انسانیت پر سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔