مقبوضہ بیت المقدس (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کی ناصرہ شہر کی نام نہاد مجسٹریٹ عدالت نے پیر کے روز فلسطینی شہریوں کی نمائندہ کمیٹی برائے حریت کے سربراہ، جرات مند قائد اور فلسطینی قوم کے ترجمان شیخ کمال خطیب کو نام نہاد “تشدد اور دہشت گردی پر اکسانے” کے جھوٹے الزام میں مجرم قرار دے دیا، جبکہ انہیں ایک نام نہاد دہشت گرد تنظیم کے ساتھ وابستگی کے الزام سے بری کر دیا گیا۔
یہ فیصلہ اندرون فلسطین میں سرگرم دو معروف انسانی حقوق کی تنظیموں، مرکز “عدالہ” اور “میزان” کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں سامنے آیا۔ واضح رہے کہ “الداخل الفلسطینی” کی اصطلاح ان علاقوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جہاں سنہ1948ء میں قابض اسرائیل نے جبری قبضہ کیا تھا۔
بیان کے مطابق ناصرہ کی عدالت نے شیخ کمال خطیب کے خلاف اس الزام کی بنیاد پر فیصلہ سنایا کہ انہوں نے سنہ2021ء میں ہونے والی تاریخی ’ہبۃ مئی‘ (مئی تحریک) کے دوران سوشل میڈیا اور ایک عوامی اجتماع میں قابض اسرائیلی مظالم کے خلاف خطاب کیا تھا۔
عدالت کی کارروائی کے دوران شیخ کمال خطیب کے اہل خانہ، سیاسی و سماجی شخصیات، کارکنان اور بڑی تعداد میں ہمدرد شریک ہوئے، تاہم صہیونی سکیورٹی نے اکثریت کو عدالتی ہال میں داخل ہونے سے روک دیا اور صرف مخصوص افراد کو اجازت دی۔
شیخ کمال خطیب نے فیصلے کے بعد کہاکہ “یہ سزا میرے لیے اعزاز ہے، کیونکہ میں نے صرف حق کی بات کی، اور مسجد اقصیٰ ہمارا غیر متنازعہ حق ہے، جس پر کوئی سودے بازی ممکن نہیں۔ ان بے بنیاد الزامات سے ہماری استقامت کو توڑا نہیں جا سکتا۔ میں نے خود کو اپنے مظلوم عوام کے لیے وقف کر دیا ہے، اور ہم اپنے اصولوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے”۔
انہوں نے مزید کہاکہ “تاریخ گواہ ہوگی کہ قابض اسرائیل کی عدالتیں قرآن مجید، سنت نبوی، عربی زبان اور فلسطینی ثقافت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں۔ ہماری شناخت کوئی وقتی جذبہ نہیں بلکہ ایک اٹل وابستگی ہے جس پر ہم پیدا ہوئے اور اسی پر جان دیں گے”۔
یاد رہے کہ سنہ2021ء کے مئی مہینے میں فلسطینی اندرون کے مختلف شہروں میں قابض اسرائیل کے خلاف شدید عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جب بنجمن نیتن یاھو کی حکومت نے القدس کے شیخ جراح محلہ، مسجد اقصیٰ اور غزہ پر حملے تیز کر دیے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے شیخ کے فیس بک پوسٹس اور خطبے کو اس بنیاد پر قابل سزا قرار دیا کہ یہ مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور تشدد پر اکسانے کے زمرے میں آتے ہیں۔
حالانکہ ان کے وکلاء کا موقف تھا کہ یہ بیانات سیاسی اور مذہبی تناظر میں دیے گئے، جن کی آزادی قابض اسرائیل کے اپنے آئین میں بھی تسلیم شدہ ہے۔
مرکز عدالہ اور میزان نے سخت الفاظ میں اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “عدالت نے ان درجنوں ماہرین کی گواہیوں کو بھی نظرانداز کیا جنہوں نے شیخ کمال کے بیانات کو مکمل طور پر جائز اور اندرون فلسطین کے عوامی بیانیے کا حصہ قرار دیا”۔