یہ سنت الہی بھی ہے اورتاریخ کی ایک ناقابل انکار حقیقت بھی کہ ظلم کی شاخ کبھی پھولتی پھلتی ہي نہيں ۔ ظلم بہرحال ظلم ہے اسے مٹنا ہی ہوتا ہے اوراسی حقیقت کی روشنی میں جب آج سے چالیس سال قبل امام خمینی نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک سرطانی پھوڑا اورغاصب وغیرقانونی حکومت ہے جوظلم پراستوارہے اسے نابود ہی ہونا ہوگا، توشاید اس وقت بہت کم لوگ امام خمینی کی اس بات پریقین کرتے رہے ہوں گے۔ امام خمینی نے اسی طرح اشتراکیت اورکمیونسٹ نظام کے بارے میں بھی گورباچف کے نام اپنے تاریخی خط ميں فرمایا تھا کہ بہت جلد کمیونزم کا شیرازہ بکھرنے والا ہے اوراسے لوگ آئندہ صرف میوزیموں ميں تلاش کریں گے، اس وقت بھی لوگوں نے شایدبہت سنجيدگی سے اس پرغورنہ کیا ہو۔ مگرچندہی برس کےاندرسویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اورکمیونسٹ بلاک کا آج دور دورتک کوئي نام ونشان نہيں ہے ۔ اسی طرح امام خمینی اوررہبرانقلاب اسلامی کے یہ فرامین بھی اب بہت جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے والے ہيں کہ اسرائیل نابود ہوجائے گا ۔اگرکوئي آج کے ذرائع ابلاغ کے کےپروپیگنڈوں سے متاثر مبصر، بظاہر غیرجانبدارنہ نگاہ سے ان باتوں کا جائزہ لیتا توشایداسے شک ویقین کی دوہری منزلوں سے گذرنا پڑتا مگرجب امریکہ اوربرطانیہ جیسے ممالک اس بات کا اعتراف کرنے لگيں کہ اب اسرائیل کی بقاء ممکن نہیں ہے تو اب کسی کوشک نہيں رہ جانا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی متعصب مبصرکیوں نہ ہو ۔اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رح نے جس حقیقت کی طرف اپنی حیات میں اشارہ کیا تھا اورفلسطینی قوم کوجوانھوں نے نوید سنائی تھی اب اس کے عملی جامہ پہننے میں زیادہ عرصہ درکارنہيں ہوگا اورجولوگ اسرائیل کوایک ناقابل شکست طاقت تصورکرتے تھے وہ اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کررہے ہيں ۔رہبرانقلاب اسلامی نے بھی گذشتہ بدھ کواپنے ایک اہم خطاب میں فرمایا تھا آج امریکی معاشرے میں اس بات کولے کربہت زیادہ غم وغصہ پایا جارہا ہے کہ آخران کے ملک پرصہیونی لابی کا اتنا اثرو رسوخ کیوں ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت اس ناراضگی اورغصے کوکم کرنے کی بے پناہ کوشش کررہی ہے مگراس بات کولے کرامریکی عوام کے غصے میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔لبنانی فوج کے سابق بریگیدیر اورپارلیمنٹ کے ممبر ولید سکریہ نے بھی ابھی حال میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل دعوی کرتا تھا کہ اسے کوئي بھی شکست نہيں دے سکتا اوروہ اپنے اسی زعم میں علاقے کے تمام ملکوں کوڈرایا دھمکایا کرتا تھا، مگرآج اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اسلامی مزاحمتی قوتوں کی میزائلوں کا خوف بیٹھ گیا ہے بلکہ وہ امن کے ان بین الاقوامی قافلوں سے بھی ڈرتا ہے جوغزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لے کرغزہ کی سمت روانہ ہوتے ہيں اوریہ سب کچھ اسرائیل کی نابودی کی علامت ہے ۔امریکہ کے ایک ممتازنظریہ پرداز اسٹنلی مک کوہن نے بھی اس بات پرزوردیتے ہوئے کہ آج پوری دنیا اسرائیلی مظالم کے مقابلے میں بیدار ہوچکی ہے کہا کہ اب صہیونی حکام بین الاقوامی قوانین کی گرفت سے بچ کرفرارنہيں کرسکيں گے اور وہ دورختم ہوگیا جب صہیونی حکام قوانین کوپائمال کرتے اوراپنی من مانی کیا کرتے تھے۔ اس امریکی نظریہ پردازکا کہنا ہے کہ اسرائیل خود کوایک جمہوری حکومت تو کہتا ہے اورآزادی بیان کا دم بھی بھرتا ہے مگروہ ایسے یہودیوں کواپنے یہاں جگہ دینے کوہرگزتیارنہيں جوصہیونیزم کومستردکرتے ہيں وہ امریکہ کے ممتازدانشور نوام چامسکی جیسی شخصیت کوبھی تل ابیب کا دورہ کرنے کی اجازت نہيں دیتا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کے دل میں سمایا ہوا ایک خوف ہے جو اس کے جرائم کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ مگرچونکہ ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے اوراسے بہرحال ایک حدپرجاکرختم ہونا ہوتا ہے اسی لئے اب اسرائیل کے سب سے بڑے حامی سامراجی ملک امریکہ کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے صہیونی حکام کی نیندیں یہ کہہ کراورزیادہ حرام کردی ہيں کہ اسرائیل آئندہ برسوں میں ختم ہوجائے گا ۔ سی آئی اے نے اپنی ٹاپ سکریٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا آئندہ بیس برسوں میں کوئي نام ونشان نہيں رہے گا فلسطین الیوم نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ اس خفیہ رپورٹ کے مطابق جودنیا کی بعض بہت ہی مشہور ویب سائٹوں پرشائع ہوچکی ہيں سی آئی اے کواب اسرائیل کی حیات اوربقاء پریقین نہیں رہ گیا ہےسی آئی اے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب تک انیس سواڑتالیس اورانیس سو سڑسٹھ کے فلسطینی پناہ گزینوں کوان کے وطن واپس آنے کی اجازت نہيں دے دی جاتی فلسطین کا پائیدار اورپرامن حل ممکن نہيں ہوگا ۔سی آئی اے کی اس خفیہ رپورٹ میں جو معدودے چند افراد کوباخبر کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزین اپنی سرزمینوں کولوٹ آئیں گے اورپھر اس کے نتیجے میں مقبوضہ سرزمینوں سے جہاں اسرائیل نے ناجائزطریقے سے صہیونیوں کوآباد کرایا ہے بیس لاکھ صہیونیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اس وقت بھی تقریبا پانچ لاکھ صہیونی، جومقبوضہ علاقوں میں لاکر بسائے گئے ہيں امریکی ریاست کیلیفرنیا جانے کے لئے پاسپورٹ اپنے ہاتھوں میں لئے تیار بیٹھے ہيں لیکن کیلفرنیا میں صرف تین لاکھ افراد کوبسانےکی گنجائش موجود ہے ۔ بین الاقوامی امورکے ماہر فرینکین لیمپ کا کہنا ہے کہ ان صہیونیوں نے لاکھ جتن کرکے جوپاسپورٹ حاصل کئے ہيں اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے انجام سے باخبرہيں ۔ سی آئی اے کی اس تازہ ترین رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ باقی پندرہ لاکھ صہیونی بھی روس اوریورپ کے ديگرملکوں میں منتقل ہوجائيں گے ۔یاد رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی سرزمین موعود کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جلد یا دیر اس کا خواب چکنا چور ہوجائے گا ۔دوسری طرف وہائٹ ہاؤس کے سابق و کہنہ مشق نامہ نگار ہیلن تھامس نے بھی کاروان آزادی پراسرائیلی حملے کے بعد کہا تھاکہ اسرائیلیوں کوچاہئے کہ وہ فلسطین سے اپنا راستہ ناپیں اوروہ جرمنی، پولینڈ اوریا امریکہ کا رخ کریں ۔ ان کے اسی بیان پرانھیں استعفاء دینے پرمجبور کردیا گیا ۔ نواسی سالہ کہنہ مشق امریکی تجزیہ نگار ہیلن تھامس نے جو وہائٹ ہاؤس میں گذشتہ پچاس برسوں سے پریس کلب کے ڈائریکٹر تھے بارہا اس بات پرتاکید کی تھی کہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کوحقائق سے دور رکھیں بلکہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک حقیقت منتقل کریں اوراگرعوام کوحالات سے باخبر نہيں کیا جائےگا تو ایسے ملک کی ڈیموکریسی ہمیشہ ہوا کے زد پررہتی ہے ۔ یہاں پرقابل غورنکتہ یہ ہے کہ مغرب اوراسرائیل، کلی طورپر ڈیموکریسی اورآزادی بیان کے اصول کواسی حدتک قبول کرتے ہيں جہاں تک ان کے مفادات کونقصان نہ پہنچے تاکہ وہ اپنے سامراجی عزائم کوآگے بڑھا سکيں ۔اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے مغرب کے اس جھوٹے دعوے کودرک کرتے ہوئے انیس سو ترسٹھ میں ہی فرمادیا تھا کہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اسرائیل کے بارے میں کچھ کہیں، یہ کون سی آزادی بیان ہے ؟مغرب کے آزادی بیان کے بارے میں امام خمینی کے بیانات کوآج سینتالیس سال کا عرصہ گذرجانے کے بعددنیا کے لوگوں کی بیداری نے انھیں حقیقی معنوں ميں آزادی بیان کا تشنہ بنادیا ہے اور وہ ظلم وستم پرکھل کرتنقید کررہے ہيں اورصہیونی حکومت کی کھوکھلی بنیادوں کے بتدریج ڈھہ جانے کا مشاہدہ کررہے ہيں ۔