غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور براہِ راست حملے غزہ کے نہتے شہریوں پر مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے پناہ گزین مراکز کو بھی براہِ راست نشانہ بنایا، جو کہ منظم نسل کشی اور روزانہ کی بنیاد پر جاری اجتماعی قتلِ عام کا حصہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک بیان میں ڈاکٹر البرش نے کہا کہ غزہ میں جاری طبی صورتحال نہایت تکلیف دہ اور الم ناک ہے۔ صرف گزشتہ چند دنوں میں تقریباً 500 شہری شہید ہو چکے ہیں، جنہیں “موت کے جال” میں پھنسا کر قابض اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر البرش نے بتایا کہ اسرائیلی افواج امداد کے انتظار میں جمع مظلوم فلسطینیوں پر توپ خانے سے گولہ باری کرتی ہیں، اور جو اس حملے سے بچ جائیں، انہیں سنائپرز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں زیادہ تر زخمیوں کو سر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں، جو براہِ راست قتل کی نیت کا ثبوت ہیں۔
ڈاکٹر البرش کے مطابق ایسی درجنوں ویڈیوز اور عینی شاہدین کی گواہیاں موجود ہیں جن میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بچوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ براہِ راست قتل کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک المناک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر البرش نے بتایا کہ شیر خوار بچی “جوری المصری” خوراک نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہو گئی۔ یہ معصوم بچی ان 66 بچوں میں شامل تھی جو صرف اور صرف بھوک، قلتِ خوراک اور علاج کی عدم دستیابی کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے 59 ہزار بچے ہیں جو تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے وبائی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک 2 لاکھ 54 ہزار سے زائد بچے نظام تنفس کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، جن میں 337 کیسز دماغی بخار (میننجائٹس) اور 259 دیگر وائرسز سے متاثر پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر منیر البرش کا کہنا تھا کہ غزہ کے بچے اب عام بچوں کی طرح پروان نہیں چڑھ رہے۔ ان کے جسم کمزور ہو چکے ہیں، چہروں پر ہوائیاں ہیں، اور آنکھوں میں آنسو تک نہیں۔ اب تک 17 ہزار بچے شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 9 ہزار خواتین بھی اس نسل کشی کا نشانہ بنی ہیں۔ مزید 55 ہزار حاملہ خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کے باعث ان کے ہاں بچے وقت سے پہلے پیدا ہو رہے ہیں یا پیدائشی نقائص کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر البرش نے عالم اسلام اور دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “عالمی برادری اور مسلم امہ غزہ کے بچوں کو بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ جوری المصری کی لاش، درحقیقت، عالمی ضمیر کی مردہ دلی اور اخلاقی ناکامی کا ایک نمونہ ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ایک بچی کی موت صرف اس لیے ہوئی کہ اسے دودھ نہیں مل سکا، اور یہ ایک ایسی شرمناک انسانی و اخلاقی رسوائی ہے جس سے پوری دنیا کا چہرہ سیاہ ہو جانا چاہیے۔
اسی تناظر میں اسرائیلی اخبار “ہارٹز” نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کے افسران اور سپاہیوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں فلسطینیوں کو امدادی مراکز سے دور رکھنے کے لیے فائرنگ کے احکامات دیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے عوام نہتے اور غیر مسلح تھے، انہوں نے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں کیا تھا، اس کے باوجود انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔