غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں زندگی اب لمحوں سے نہیں بلکہ سانسوں سے ناپی جاتی ہے۔ یہاں بچپن کا مطلب قہقہوں کی بجائے ماؤں کے کمزور سینوں پر بے زبان رونے بن چکا ہے۔
چیتھڑوں سے جُڑی خیموں میں، خالی ہسپتالوں کے بستر پر، مائیں اپنے معصوم بچوں کو دودھ کی جگہ دال کا شوربہ پلا رہی ہیں۔ دوا ہے، نہ غذا، دودھ ہے اور سب سے بڑھ کر نہ کوئی سننے والا ہے۔
غزہ، جہاں دودھ نایاب ہو چکا ہے
خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کی زرد دیواروں کے بیچ ڈاکٹرز بے بسی سے ان سیکڑوں نومولود بچوں کو دیکھ رہے ہیں جو آہستہ آہستہ سانسیں توڑ رہے ہیں۔ ان ننھے بچوں کے لیے حیات کی ڈور کا سہارا یعنی علاج اور مصنوعی دودھ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
یہ نہ تو فارمیسیز میں ملتا ہے، نہ گوداموں میں، نہ بازاروں میں اور نہ ہی ماؤں کی آنکھوں میں کسی امید کی صورت۔
ناصر کمپلیکس کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہےکہ ’’یہ کمی نہیں، بلکہ جینے کے حق کا مکمل انہدام ہے‘‘۔ ان کے بقول ’’یہ بچے خاموشی سے دم توڑ رہے ہیں‘‘۔ اور نرسریوں میں جو معمولی مقدار میں ’دودھ نمبر 1‘ بچا ہے، وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو سکتا ہے۔
شوربہ، بچوں کی خوراک بن گیا
شہر غزہ کے الجلاء سڑک پر ایک پھٹے پرانے خیمے میں ازھار محمد اپنی تین ماہ کی بیٹی ’حور‘ کو شوربہ پلانے پر مجبور ہے۔ وہ کئی دن سے بازاروں، ہسپتالوں اور دکانوں کا چکر لگا چکی ہے، مگر مصنوعی دودھ دستیاب نہیں۔
ننھی حور جو ابھی زندگی کو سمجھ بھی نہ پائی قابض اسرائیل کی بھوک مار پالیسی کی براہِ راست شکار بن چکی ہے۔ وہ پیچش اور شدید پانی کی کمی کا شکار ہے اور ڈاکٹرز خبردار کر چکے ہیں کہ مناسب غذا نہ ملی تو اس کی جان جا سکتی ہے۔
جو دودھ جنگ سے پہلے چند ڈالروں میں دستیاب تھا، وہ اب 90 ڈالر میں بھی خواب بن چکا ہے۔ معاشی تباہی، بے روزگاری اور محاصرہ اس رقم کو ناقابلِ حصول بنا چکا ہے۔
ہر پانچ دن بعد یہ ماں دوبارہ تلاش پر نکلتی ہے ،بازاروں میں، ہسپتالوں میں اور راہ چلتے لوگوں کی نظروں میں امید ڈھونڈتی ہے۔
اعداد و شمار موت کی گواہی دیتے ہیں
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، نوزائیدہ بچوں کے لیے مخصوص دودھ جیسے LF، AR، Isomil اور سویا بیسڈ فارمولا مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔
جو تھوڑی بہت مقدار بچی ہے، وہ صرف نازک ترین مریضوں کے لیے رکھی گئی ہے۔ بچوں کے الرنتیسی ہسپتال کو ہر ماہ 500 عبوات درکار ہوتی ہیں، مگر اب وہاں صرف پرانی یادیں باقی ہیں۔
صرف مئی کے مہینے میں، بچوں کی نگہداشت کے مراکز نے 5,119 ایسے کیسز ریکارڈ کیے جن میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا تھا۔ ان میں سے 636 کیسز ’’انتہائی خطرناک‘‘ سطح پر تھے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، کم از کم 55 بچے صرف بھوک کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔
عالمی خاموشی… ایک کھلی سازش
اگرچہ اقوام متحدہ نے قابض اسرائیل کو بچوں پر سنگین مظالم کرنے والے ممالک کی ’’سیاہ فہرست‘‘ میں شامل کیا ہے، لیکن مظالم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
بارڈر بند ہیں، امداد روک لی گئی ہے، اور بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ عمل عالمی فوجداری عدالت کے بنیادی اصول – یعنی آرٹیکل 8 – کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جرم ریکارڈ پر ہے، متاثرین کی فہرست تیار ہے، خاموشی بے نقاب ہے… صرف انصاف ابھی باقی ہے۔
نوزائیدہ بچہ جنگجو نہیں، عدس دودھ نہیں ہوتا
غزہ کے ہسپتالوں میں بچوں کی جھلکیاں گویا قیامت کی فلموں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ قحط معصوموں کو نگل رہا ہے، اور انسانیت سیاست کے تختے پر ٹنگی ہوئی ہے۔
یہ معصوم نہ ’’بارڈر بندش‘‘ سمجھتے ہیں، نہ ’’اقوام متحدہ کی فہرستیں‘‘ اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ عدس شوربہ ہے یا دودھ۔ لیکن ایک چیز وہ بخوبی پہچانتے ہیں: بھوک۔
دودھ، دوا اور غذا کی ترسیل روکنے کے باوجود اگر عالمی عدالتِ انصاف بھی خاموش ہے، تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ صرف محاصرہ نہیں، ایک منظم نسل کشی ہے… ایک بے آواز قتل عام۔
غزہ کے بچے صرف اعداد نہیں
حور، ناصر ہسپتال کے نومولود، الرنتیسی کے نازک بچے… سب آج بھوک کے قیدی بن چکے ہیں۔
یہ دنیا جو جنگ کے دھویں میں اندھی ہو چکی ہے، اس نے غزہ کے بچوں کا بچپن ان کی ماؤں کی باہوں سے چھین کر، خالی دودھ کی بوتلوں میں دفن کر دیا ہے۔
یہ بچے کسی کی ترحم نہیں مانگتے۔ وہ صرف جینے کا قانونی حق مانگتے ہیں۔ ان کی مائیں صرف اتنا چاہتی ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے دودھ دینے کی اجازت دی جائے۔