Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

قابض اسرائیل کے فوجیوں کا غزہ میں فاقہ زدہ شہریوں کے اجتماعی قتل کا اعتراف

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے سرکاری دفتر برائے اطلاعات نے قابض اسرائیلی فوجیوں اور افسران کی جانب سے دیے گئے انکشافات کو ایک منظم، خونی اور ہولناک حقیقت قرار دیا ہے، جن میں انہوں نے غزہ میں بھوک سے نڈھال شہریوں پر جان بوجھ کر فائرنگ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ انکشافات اسرائیلی اخبار “ہارٹز” نے جمعہ کے روز شائع کیے، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کے معصوم شہریوں کو خوراک کے نام پر موت کے کنویں کی طرف دھکیلا گیا۔

اخبار “ہارٹز” کے مطابق اسرائیلی فوج کے کئی سپاہیوں اور افسران نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں قائم ان مراکز پر جنہیں امریکی و اسرائیلی امداد کی تقسیم کا نام دیا گیا ہے، جان بوجھ کر ایسے شہریوں کو نشانہ بنایا جو کئی ماہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔

غزہ کے دفتر برائے اطلاعات نے واضح کیا کہ یہ بیانات درحقیقت ایک اندرونی، واضح اور ناقابل تردید اعتراف ہیں کہ قابض اسرائیل نے منظم طور پر جنگی جرائم اور اجتماعی قتل کی کارروائیاں کیں، خاص طور پر ان شہریوں کے خلاف جنہیں طویل عرصے سے بھوکا رکھا گیا، محصور کیا گیا اور امداد سے محروم رکھا گیا۔

رپورٹ میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان مجرمانہ کارروائیوں میں فوج کو براہ راست احکامات دیے گئے کہ وہ ان نہتے شہریوں پر فائرنگ کریں، جو صرف خوراک لینے آئے تھے۔ ان پر بھاری ہتھیار، گولہ باری اور بندوقوں سے حملہ کیا گیا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کسی قسم کی امدادی کارروائی نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بند نسل کشی میں مصروف ہے، جسے جھوٹ کے پردے میں “ریلیف” کا نام دیا گیا ہے۔

یہ انکشافات اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں کہ قابض اسرائیل کی فوج نجی سکیورٹی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر مالی مفادات کے حصول کے لیے معصوم انسانی جانوں کا خون بہا رہی ہے۔

غزہ کے سرکاری اطلاعاتی دفتر نے عالمی اداروں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر ان انسان دشمن اقدامات کا نوٹس لیں، محاصرے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات کریں اور امداد کو اقوام متحدہ کے ذریعے غزہ پہنچائیں تاکہ مظلوم عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔

دفتر نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان مظالم کو جنگی جرائم قرار دے کر قابض اسرائیل کے مجرم فوجیوں اور ان کے کمانڈروں کو فوری طور پر بین الاقوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس مجرمانہ خاموشی کو دنیا کا مجرمانہ کردار تسلیم کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس خاموشی نے غزہ کے ہزاروں معصوم لوگوں کو اجتماعی قبر میں اتار دیا ہے۔

دفتر نے اپنی شدید ترین مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے فاقہ زدہ شہریوں کے خلاف جاری اجتماعی قتل کا سلسلہ ایک خوفناک انسانیت سوز درندگی ہے، جس کی مکمل ذمہ داری قابض اسرائیل، امریکہ اور ان کے حلیف ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر عائد ہوتی ہے، جو اس نسل کشی میں شریک مجرم بن چکے ہیں۔

عالمی برادری کے تمام آزاد ضمیر لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ہر ممکن ذریعے سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی کوشش کریں اور فلسطینی عوام کے خلاف جاری اس درندگی، فاقہ کشی اور انسانی بحران کو روکا جائے۔ غزہ میں 24 لاکھ فلسطینی، جن میں 11 لاکھ بچے اور 5 لاکھ سے زائد خواتین شامل ہیں، تاریخ کے بدترین المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔

ادھر قابض اسرائیلی فوج کے کئی سپاہیوں نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ امداد کے متلاشی فلسطینیوں پر گولیاں چلائیں تاکہ انہیں وہاں سے ہٹایا جا سکے۔ ہآرتس نے بتایا کہ اسرائیلی فوج ان نہتے شہریوں پر “جو کچھ بھی ان کے پاس ہے” سے فائرنگ کرتی ہے، جن میں بھاری مشین گنیں بھی شامل ہیں۔

ایک فوجی نے بیان دیا کہ یہ امدادی مراکز درحقیقت “قتل گاہیں” بن چکی ہیں جہاں قابض اسرائیل کی فائرنگ کسی دشمن افواج کے خلاف نہیں بلکہ نہتے شہریوں پر کی جاتی ہے۔ سنہ2023ء کے 7 اکتوبر کے بعد سے، جب ان مراکز کو “امریکی اسرائیلی امداد” کے بہانے قائم کیا گیا، تب سے اب تک ان مراکز کو روزانہ فاقہ زدہ شہریوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بارڈر کراسنگز کو بند کیے تقریباً چار ماہ ہو چکے ہیں، اور اس دوران انسانی امداد کا داخلہ مکمل طور پر روکا گیا ہے، جس کی وجہ سے 24 لاکھ فلسطینی جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے قحط، فاقہ کشی، بیماری اور بے گھری جیسے المناک حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔

یہ ساری صورت حال عالمی ضمیر کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ کیا دنیا انسانیت کا پرچم صرف اپنے مفادات کے لیے اٹھاتی ہے؟ کیا فلسطینیوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ ان سوالوں کے جواب تاریخ ضرور مانگے گی۔

۔

علما کا طوفان الاقصیٰ کی حمایت میں متفقہ میثاق، فلسطینی مزاحمت کو شرعی فریضہ قرار

استنبول – مرکزاطلاعات فلسطین

دنیا بھر کے سینکڑوں جید علمائے کرام، فقہاء، اسلامی اداروں اور تنظیموں نے ایک متفقہ اور ہمہ گیر شرعی میثاق جاری کیا ہے، جس کا عنوان ہے: “علمائے امت کا طوفان الاقصیٰ اور اس کے اثرات پر میثاق”۔ اس میثاق میں فلسطینی مزاحمت کی شرعی حیثیت اور اس کی لازمی حمایت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ یہ معرکہ جو فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے سات اکتوبر سنہ2023ء کو شروع کیا تھا مکمل طور پر شرعی، قانونی اور امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

یہ میثاق بڑی شرعی انجمنوں اور معروف علمائے دین کی طویل مشاورت، غور و فکر اور باریک بینی سے کیے گئے جائزے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد غزہ پر مسلط جنگ کے دوران شرعی موقف کی وضاحت کرنا، جہاد اور مزاحمت کی مشروعیت کے حوالے سے اٹھائے گئے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا اور پوری امت مسلمہ کو فلسطین، القدس اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی دینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروانا ہے۔

میثاق میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ فلسطین، بحر سے نهر تک مکمل طور پر ایک اسلامی سرزمین ہے، جس کا کوئی بھی گوشہ کسی کو بھی دینے یا اس سے دستبردار ہونے کا اختیار نہیں۔ قابض صہیونی ریاست ایک ناجائز، غاصب اور باطل وجود ہے، جسے کسی معاہدے یا نام نہاد امن معاہدے کے ذریعے بھی شرعی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی، اور ایسی تمام کوششیں شریعت کی نظر میں باطل اور امت پر غیر لازم ہیں۔

علمائے امت نے میثاق میں یہ بات واضح کی کہ فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد اہل فلسطین پر فرض عین ہے، جب کہ پوری امت مسلمہ پر فرض کفایہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرزمین مقدس میں ڈٹے رہنا سب سے افضل جہاد ہے، اور اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کا حق ایک ناقابل تنسیخ شرعی حق ہے، جو وقت گزرنے سے ختم نہیں ہوتا۔

میثاق میں “طوفان الاقصیٰ” کو ایک جائز اور مکمل طور پر شرعی جہاد دفاع قرار دیا گیا، جس کے لیے کسی حکمران یا ولی الامر کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی دشمن کے ساتھ توازن لازم ہے۔ کیونکہ جب ظلم و جارحیت مسلط کر دی جائے، تو اس کا جواب دینا فرض ہو جاتا ہے۔

علمائے امت نے وضاحت کی کہ جہاد دفاع کا مطلب ہے دشمن کے حملے کو ہر دستیاب ذریعہ، خواہ وہ جان ہو، مال ہو، زبان ہو یا دیگر وسائل، کے ذریعے روکنا اور اس کا مقابلہ کرنا۔ میثاق کے مطابق 385 سے زائد اسلامی مراکز، ادارے اور علماء اس پر دستخط کر چکے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ غزہ میں لڑنے والے مجاہدین نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، چاہے وہ شہید ہو گئے، قید ہوئے یا زخمی، ان کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان کی قربانیوں کو سراہنا ہم سب پر واجب ہے۔

انہوں نے غزہ کی خواتین کی قربانیوں، عوام کے صبر، اور وہاں موجود علماء، دینی رہنماؤں، ڈاکٹروں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں کی خدمات کو بھی جہاد کی اقسام میں شمار کیا۔

علمائے امت نے اس میثاق میں کسی بھی ایسے منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا، جو فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، مہاجرین کی دیگر ممالک میں آبادکاری، یا مزاحمت کے اسلحے کو بے اثر کرنے کے لیے ہو۔ انہوں نے ان منصوبوں کو شرعی خیانت قرار دیا، جو صرف دشمن کی مدد کے مترادف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط کردہ محاصرہ اور بھوک کو ایک “انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی اور مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan