مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے اپنی تازہ ترین پریس بریفنگ میں ایران پر جاری جارحیت کو قیدیوں سے جوڑنے کی مذموم کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کے خلاف جنگ، غزہ میں قید قابض اسرائیلی فوجیوں کی واپسی میں معاون ہو سکتی ہے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کی شب جنوبی کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک سکیورٹی جائزہ میٹنگ کے دوران کہی۔ اس موقع پر صہیونی اخبار ’یدیعوت آحارونوت‘ اور فوجی ریڈیو نے بھی زامیر کی گفتگو کو نشر کیا۔
ایال زامیر نے کہا کہ “ہم اس وقت ایک ایسے آپریشن میں مصروف ہیں جس کا مقصد قابض اسرائیل کے وجود پر منڈلاتے مبینہ خطرے کو ختم کرنا ہے”۔ انہوں نے بے بنیاد الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “ایران ہی حماس کو اسلحہ دیتا ہے، ان کی مالی معاونت کرتا ہے، اس لیے تہران کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا اثر غزہ پر بھی پڑے گا”۔ زامیر نے کہا کہ “ہم ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنا رہے ہیں”۔
صہیونی فوجی سربراہ نے مزید الزام لگایا کہ ایران سے یمن اور پھر دیگر مزاحمتی دھاروں کے ذریعے ایک مشترکہ مزاحمتی محاذ وجود میں آیا ہے، جسے قابض اسرائیل اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق “ایران کو نشانہ بنانے کا مطلب اس پورے محاذ کو کمزور کرنا ہے، اور بالآخر غزہ میں القسام بریگیڈز تک یہ اثر پہنچے گا”۔
انہوں نے سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد ہونے والے واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ “ہم نے سبق سیکھ لیا ہے، اب خطرات کے سر اٹھانے سے پہلے ہی ان کا سدباب کریں گے”۔
زامیر نے واضح کیا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری قابض اسرائیلی فوجیوں کی واپسی اور حماس کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران پر جارحیت کا اثر بالآخر غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی پر پڑے گا۔
واضح رہے کہ القسام بریگیڈز کی قیادت میں حماس کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکی ہے کہ وہ تمام قابض اسرائیلی قیدیوں کو ایک ساتھ رہا کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ قابض اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کش جنگ روکی جائے، قابض فوج غزہ سے واپس بلائی جائے اور فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔
مگر بنجمن نیتن یاھو جو عالمی عدالت انصاف کو بھی مطلوب ہے، مسلسل نئی شرائط لگا کر مذاکرات کو ناکام بناتا چلا آ رہا ہے۔
قابض اسرائیل کے مطابق اس وقت غزہ میں 54 اسرائیلی قیدی موجود ہیں، جن میں سے 20 زندہ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف، اسرائیلی جیلوں میں دس ہزار چار سو سے زائد فلسطینی قید ہیں، جنہیں تشدد، فاقہ کشی، طبی غفلت اور انسانی تذلیل کا سامنا ہے۔ درجنوں فلسطینی قیدی ان مظالم کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں قابض اسرائیل واحد ریاست ہے جو خفیہ جوہری ہتھیاروں کی بڑی تعداد رکھتی ہے اور بین الاقوامی معاہدوں سے آزاد ہو کر مسلسل نہ صرف فلسطین بلکہ شام اور لبنان کی سرزمین پر بھی قبضہ جمائے ہوئے ہے۔