برلن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہوشربا صورت اختیار کرلی ہے۔ مسلمان ہونے کی سزا اب نہ صرف اذیت بن چکی ہے بلکہ اسے جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ لرزہ خیز انکشاف ایک جرمن تنظیم “کلیم” کی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی نگرانی کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ2024ء کے دوران اسلاموفوبیا کے 3080 سنگین واقعات ریکارڈ کیے گئے، جب کہ سنہ2023ء میں یہ تعداد 1926 تھی۔ ان اعداد و شمار میں صرف اضافہ ہی نہیں، بلکہ شدت اور سنگینی بھی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
اگرچہ رپورٹ میں اس اضافے کی ایک وجہ مشاورتی مراکز کی تعداد میں اضافے کو بھی بتایا گیا ہے، جو 17 سے بڑھا کر 26 کر دیے گئے، مگر یہ بھی واضح کیا گیا کہ پرانے مراکز نے بھی متاثرہ افراد کی شکایات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا۔
رپورٹ میں خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ زیادہ تر مظلومین نے سرکاری اداروں سے رجوع کرنے سے گریز کیا، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں، کیونکہ والدین کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں پر ہونے والے مظالم کی شکایت کریں گے، تو انہیں مزید انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔
شبکہ کلیم کی نمائندہ جوزین جیھان نے کہا کہ بعض واقعات اس قدر وحشیانہ تھے کہ انہوں نے انسانی وقار کو بری طرح پامال کر دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں تقریباً 70 فیصد خواتین تھیں۔ ان خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کو بھی زبانی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں دہشت گرد، چاقو بردار یا خطرناک مجرم قرار دے کر ہراساں کیا گیا۔
یہ اسلام دشمنی کی لہر خاص طور پر اس وقت مزید شدت اختیار کر گئی جب 7 اکتوبر سنہ2023ء کو قابض اسرائیل نے فلسطین کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ کے بعد جرمنی میں نسلی اور مذہبی تعصب پر مبنی واقعات میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ ان واقعات میں مساجد کی بے حرمتی، باحجاب لڑکیوں کے خلاف توہین آمیز جملے، نازی دور کی علامتوں کا استعمال، ہولوکاسٹ کے انکار جیسے مکروہ رجحانات شامل ہیں۔
رپورٹ میں دل دہلا دینے والے کچھ واقعات کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں، جیسے کہ ایک مسلمان خاندان کے گھر کے سامنے سور کا سر پھینک دینا، یا نسلی تعصب پر مبنی دھمکی آمیز خطوط بھیجنا۔
شبکہ کلیم نے اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ موجودہ سیاسی و میڈیا بیانیہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہا ہے، جس کے باعث متاثرین کا ریاستی اداروں پر اعتماد بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ ادارے نے فوری طور پر نفرت کے خلاف اقدامات کرنے، تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے پر زور دیا ہے۔