غزہ(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں قابض اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور ماحول دوست بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کے باعث ایک نئی انسانی المیے نے جنم لے لیا ہے۔ فلسطینی تنظیموں کے اتحاد ’’فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی گلیوں، سڑکوں اور پناہ گاہوں کے ارد گرد جمع ہونے والے لاکھوں ٹن کوڑے اور طبی فضلے نے وہاں کے باسیوں کی صحت کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
زہریلے اخراجات کا زرخیز زمینوں اور زیرزمین پانیوں تک رسائی حاصل کر لینا صرف ماحولیاتی آلودگی نہیں بلکہ ایک خاموش موت ہے، جو ہر لمحہ غزہ کے بےبس عوام کا گھیرا تنگ کر رہی ہے۔
نیٹ ورک نے واضح کیا کہ غزہ میں پھیلنے والا یہ ماحولیاتی بحران محض کچرے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک موت بانٹتا منظر ہے، جہاں بیمار، بچے، خواتین اور بوڑھے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ فضاء زہریلے دھوئیں اور جراثیم سے لبریز ہو چکی ہے، کیونکہ کچرا اٹھانے کا کوئی نظام باقی نہیں رہا۔ سرکاری ٹھکانے بند ہو چکے ہیں، گلیوں میں کچرے کو بےدھڑک جلا دیا جاتا ہے۔
گھریلو اور طبی فضلے کا امتزاج مزید خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے، جس کے باعث جلدی امراض اور سانس کی بیماریوں میں ہوشربا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ماحولیاتی اور صحت کا بحران درحقیقت قابض اسرائیل کے غزہ پر جاری وحشیانہ حملوں اور محاصرے کا نتیجہ ہے، جن کے تحت دانستہ طور پر صفائی کا نظام، بلدیاتی خدمات اور فضلہ ٹھکانے لگانے کے تمام ادارے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ نہ مشینیں داخل ہونے دی جا رہی ہیں، نہ ایندھن۔ نتیجہ یہ ہے کہ غزہ میں 6 لاکھ ٹن سے زائد کچرا جمع ہو چکا ہے۔
یہ صرف آلودگی نہیں بلکہ اہل غزہ کے زندہ رہنے کے حق پر ایک کھلی یلغار ہے۔ ایک ایسا ظلم ہے جو انسانی صحت، عزت، اور ماحول کے تحفظ کے حق کو روند رہا ہے۔
یہ المناک رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں “یوم ماحولیات” منایا جا رہا ہے، جس کا پیغام یہ ہے کہ ہر انسان کو صاف، محفوظ اور صحت مند ماحول میں جینے کا حق ہے۔
رپورٹ میں اعداد و شمار کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ ماحولیاتی بحران ایک مستقل مسئلے سے بڑھ کر ایک مکمل انسانی سانحہ بن چکا ہے۔ یہ صرف بیماریوں کا ذریعہ نہیں بلکہ امدادی سرگرمیوں اور تعمیر نو کی راہ میں بھی ایک دیوار ہے۔
اس تحقیق نے اقوام عالم اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سامنے یہ سوال رکھ دیا ہے کہ کیا وہ ایک مظلوم قوم کو کچرے میں دفن ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ یا وہ فوری طور پر عملی قدم اٹھا کر اس نسل کشی کو روکنے کی کوشش کریں گے؟