یمن(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعاء کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کی گئی فضائی بمباری جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہے، جن کی فوری اور غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق 6 اور 28 مئی کو کیے گئے ان حملوں میں ایئرپورٹ پر موجود تمام شہری اور تجارتی طیارے تباہ ہو گئے، جس سے ہزاروں یمنی شہریوں کا دنیا سے واحد فضائی رابطہ ختم ہو گیا۔ اس تباہی کے باعث نہ صرف انسانی امداد کی رسائی رک گئی بلکہ ہنگامی طبی ضرورت والے مریضوں کا بھی بیرون ملک جانا ممکن نہ رہا۔
ہیومن رائٹس واچ میں یمن اور بحرین امور کی محققہ نیکو جعفرنیا نے واضح کیا کہ “صنعاء کا ہوائی اڈہ یمنیوں کے لیے زندگی کی ایک اہم شہ رگ تھا، خاص طور پر اُن مریضوں کے لیے جو بیرون ملک علاج کے محتاج تھے”۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ائیرپورٹ کی تباہی نے ہزاروں شہریوں کو دنیا سے ان کے آخری رابطے سے بھی محروم کر دیا۔
ماہرانہ تجزیے، سیٹلائٹ تصاویر، ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق یہ بمباری نہ صرف چار شہری طیاروں کی مکمل تباہی کا سبب بنی بلکہ ایئرپورٹ کے رن وے، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
مقامی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ 28 مئی کو ہونے والا دوسرا حملہ اس وقت کیا گیا جب ایئرپورٹ پر حجاج، بین الاقوامی تنظیموں کے ملازمین اور دیگر عام شہری موجود تھے۔ خوش قسمتی سے حملے سے پہلے خبردار کیے جانے کی وجہ سے جانی نقصان نہیں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ صنعاء کا ہوائی اڈہ حوثی مزاحمتی فورسز کے کنٹرول والے علاقوں کے لیے نہ صرف واحد فضائی راستہ ہے بلکہ اسی کے ذریعے انسانی امداد، ادویات، اور بیرونِ ملک علاج کے لیے مریضوں کی نقل و حمل ممکن ہوتی ہے۔ اب یہ راستہ مکمل طور پر مسدود ہو چکا ہے۔
ادھر یمن میں جاری ادویات کی شدید قلت اور طبی ساز و سامان کی کمی نے صورتحال مزید ابتر کر دی ہے۔ طبی اعداد و شمار کے مطابق کینسر کے 60 فیصد مریض صرف اس لیے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ وہ بروقت علاج یا بیرونِ ملک سفر کے قابل نہ رہے۔