غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی دانشور اور سیاسی تجزیہ کار وسام عفیفہ نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے بیس ماہ پر محیط تباہ کن جنگ، وحشیانہ قتل عام اور مکمل نسل کشی کے باوجود غزہ میں اپنے اسٹریٹیجک اہداف کے حصول میں ناکامی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ فلسطینی مزاحمت آج بھی دشمن کے لیے ایک اٹل چٹان بنی کھڑی ہے اور ہر محاذ پر خود کو منوانے میں کامیاب ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو میں عفیفہ نے کہا کہ فلسطینی قوم ایک گہرے داخلی بحران سے دوچار ہے جس کا اعتراف ضروری ہے۔ تمام فلسطینی دھڑوں اور فلسطینی اتھارٹی کو اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر اتحاد و یگانگت کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ آج بھی فلسطینی عوام کا جذبہ زندہ ہے، جو تمام صہیونی-امریکی سازشوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔
عفیفہ نے جنگ بندی سے متعلق جاری کوششوں پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ حماس نے امریکی ایلچی ویٹکوف کی بعض تجاویز پر رضامندی ظاہر کی، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی ہٹ دھرمی، اور امریکہ کا دوغلا پن اس راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نیتن یاھو اپنی حکومت کو بچانے کی سیاست کھیل رہا ہے۔ ویٹکوف صرف ایک کردار ادا کر رہا ہے جس کا مقصد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عرب اور اسلامی دنیا کی اکثریت اس انسانی المیے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ تاہم یمن، لبنان، عراق اور یورپ کے عوامی حلقوں کی غیر متوقع حمایت صہیونی دشمن کے لیے چونکا دینے والی تھی۔ عفیفہ نے واضح کیا کہ غزہ تمام تر بربادی کے باوجود اب بھی مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے، لیکن یہ معرکہ نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی محاذ پر بھی بھرپور فلسطینی وحدت اور عالمی دباؤ کا متقاضی ہے۔
تباہی کے بیس مہینے: فلسطینی منظرنامہ
ایک سوال کے جواب وسام عفیفہ نے کہا کہ بیس مہینوں کی خوں چکاں جنگ کے بعد بھی غزہ کی حالت جوں کی توں ہے۔ اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا، شہر کے شہر ملبے کا ڈھیر بنا دیے، مگر پھر بھی وہ اپنے بنیادی اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ وہ تاحال “فتح” کا اعلان نہیں کر پا رہا کیونکہ نہ تو تمام قیدی آزاد ہوئے، نہ ہی جبری ہجرت کی سازش مکمل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ آج جنگ کا میدان نہیں بلکہ ایک کھنڈر بن چکا ہے، مگر مزاحمت کی روح آج بھی زندہ ہے۔ دشمن کے بے شمار حملوں کے باوجود فلسطینی مزاحمت اب بھی میدان میں موجود ہے سیاسی سطح پر سرگرم ہے اور دشمن کو مذاکرات کی میز پر گھسیٹنے پر مجبور کر رہی ہے۔
عفیفہ نے اعتراف کیا کہ فلسطینی داخلی سطح پر بحران کا شکار ہیں، عرب و اسلامی دنیا کی بے حسی اور بین الاقوامی برادری کی خاموشی نے المیے کو سنگین بنا دیا ہے۔ لیکن فلسطینی قوم اب بھی موجود ہے اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئی اور یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔
مزاحمت کا غیر متزلزل عزم
عفیفہ کا کہنا تھا کہ مزاحمت نے تاریخ کے بدترین حالات میں بھی دشمن کے سامنے ہار نہیں مانی۔ وہ آج بھی عسکری اور سیاسی میدانوں میں موجود ہے، امریکہ اور اسرائیل کی چالوں کو سمجھتی ہے اور کبھی قیدیوں کے تبادلے کی بات کرتی ہے تو کبھی مکمل جنگ بندی کی، تاکہ انسانی المیے کو کم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ بنجمن نیتن یاھو نے مزاحمت کو غیر مؤثر دکھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ حماس نے کئی تجاویز پر آمادگی ظاہر کی مگر امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کے موقف کو ترجیح دی اور صہیونی شرائط کو ترجمان بن کر پیش کیا۔ امریکہ محض ثالث نہیں ایک فریق ہے جو اسرائیلی جرائم کا شریکِ کار ہے۔
جنگ بندی کی امید اور ناکامی کے خدشات
جنگ بندی کی کوششوں کے بارے میں عفیفہ نے کہا کہ امید تو موجود ہے، مگر یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب امریکہ اپنا رویہ بدلے اور قابض اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالے یا اسرائیل کے اندر نیتن یاھو حکومت کے خلاف دباؤ اتنا بڑھے کہ وہ جنگ بندی کی طرف مجبور ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ تین ممکنہ منظرنامے ہمارے سامنے ہیں: ایک، جنگ اسی شدت سے جاری رہے اور اسرائیل “عربات جدعون” منصوبے کے ذریعے مزید زمین ہتھیانے اور گھیٹو قائم کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرا عالمی یا علاقائی دباؤ کے تحت جنگ بندی نافذ ہو؛ تیسرا، اسرائیل کے اندر ایک سیاسی بغاوت جنگ کے خاتمے کا سبب بنے۔
انہوں نے واضح کیا کہ انسانی صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ وقت کا ہر لمحہ خون میں ڈوبا ہے۔ رفح میں جو کچھ ہوا وہ ایک چیخ ہے جو دنیا کو سننی چاہیے، بھوک نے لاکھوں فلسطینیوں کو جھونپڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور غیر انسانی حالات نے غزہ کو ایک اجتماعی قبرستان میں بدل دیا ہے۔
فلسطینی عوام اور مزاحمت کا رشتہ
عفیفہ نے اس خطرناک رجحان پر تشویش کا اظہار کیا جسے “اویخای سیل” کہا جا رہا ہے، جس میں چند افراد کو مزاحمت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اندرونی انتشار کی کوشش ہے، جسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ دشمن تمام تر کوششوں کے باوجود مزاحمت کو عوام سے کاٹنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ کے عوام قحط، بمباری، بیماری اور بے گھری سہہ کر بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔
امریکہ اور اسرائیلی درندگی
امریکہ کی پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے وسام عفیفہ نے کہا کہ وہ اب بھی صہیونی منصوبے کی پشت پر کھڑا ہے۔ کوئی غیر جانبداری اس کی پالیسی میں نظر نہیں آتی۔ اگر امریکہ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ نہ صرف اپنا اعتبار کھو بیٹھے گا بلکہ خطے میں اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
عرب دنیا کی خاموشی اور یمن، لبنان، عراق کی آواز
عفیفہ نے امت مسلمہ کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ دو ارب مسلمان ہونے کے باوجود غزہ کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یمن، لبنان اور عراق نے جس طرح فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی وہ غیر معمولی ہے، جبکہ باقی عرب دنیا کی خاموشی ایک بدنما داغ بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ میں عوامی مظاہرے اور امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی بیداری یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب حکومتیں پیچھے رہ گئی ہیں اور عوام فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اور امید افزا تبدیلی ہے۔
اب کیا کیا جائے؟
عفیفہ کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے فلسطینیوں کا قتل عام بند ہونا چاہیے۔ جنگ بندی فوری طور پر ہونی چاہیے۔ اس کے بعد بازآبادکاری کا مرحلہ ہوگا جو نہایت اہم ہے تاکہ قابض اسرائیل غزہ کو ناقابلِ رہائش علاقہ قرار دینے میں کامیاب نہ ہو۔
انہوں نے فلسطینی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے تمام منصوبوں پر ازسرنو غور کرے، کیونکہ اتنے بڑے صدمے کے بعد فلسطینی قوم کسی ایسے لیڈر یا تنظیم کو قبول نہیں کرے گی جو اس حقیقت کو نظر انداز کرے۔