لندن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے دو ملین سے زائد محصور فلسطینیوں کے خلاف مسلط کی گئی دانستہ بھوک اور قحط کی پالیسی اب ایک ناقابل بیان انسانی المیے میں بدل چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اور وافر مقدار میں غذائی امداد نہ پہنچی تو آئندہ دو دنوں میں کم از کم چودہ ہزار معصوم بچے بھوک سے دم توڑ سکتے ہیں۔
اگرچہ قابض ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے پانچ ٹرکوں کو خوراک اور بچوں کی امدادی اشیاء کے ساتھ غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے، تاہم انسانی حقوق کے ماہرین نے اس اقدام کو محض “قطرہ دریا” قرار دیا ہے، جو زمینی حقائق اور بھوک سے نڈھال لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے واضح کیا کہ غزہ میں اس وقت شدید درجے کی غذائی قلت ہے، جہاں تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار افراد سخت بھوک کا شکار ہیں۔ انہوں نے “بی بی سی” سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر فوری غذائی امداد نہ پہنچی تو چودہ ہزار نوزائیدہ بچے جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
ٹام فلیچر نے بتایا کہ پیر کے روز کرم ابو سالم گزرگاہ سے جو چند ٹرک داخل کیے گئے وہ بھی ان لاکھوں بھوکے لوگوں تک ابھی نہیں پہنچ پائے۔ انہوں نے منگل کے روز اسرائیل کی طرف سے سو ٹرکوں کے داخلے کی اجازت دیے جانے کا بھی ذکر کیا، مگر اس پر شدید تشویش ظاہر کی کہ ممکنہ لوٹ مار اور بدنظمی کی فضا میں یہ امداد بھی شاید متاثرین تک نہ پہنچ سکے۔
غزہ کی پٹی کو دو مارچ سے مکمل محاصرے میں لے لیا گیا ہے، جسے آج اناسی دن ہو چکے ہیں۔ اس دوران اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے غذائی ذخائر مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور لاکھوں خاندان بھوک، بیماری، خوف اور بے گھری کی اذیت ناک حالت میں جی رہے ہیں۔
اوکسفام کے نمائندے وسام مشہدی نے کہا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے عوام سے خوراک، پانی اور دوا کا حق چھین لیا ہے اور اندھا دھند بمباری کے ذریعے ہر دن ان کی زندگی کو مزید اجیرن بنا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں اس وقت بیس لاکھ افراد قحط، صدمے اور بیماری کا شکار ہیں اور زندگی کی ہر امید دم توڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محدود امداد کی اجازت کوئی بڑی پیش رفت نہیں، بلکہ بین الاقوامی دباؤ کے سامنے ایک وقتی جھکاؤ ہے، جس کا مقصد محض تنقید کو وقتی طور پر روکنا ہے۔
ادھر پیر کے روز برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں جاری انسانی المیے کو “ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر ممکنہ پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات کو معطل کر رہی ہے۔ فرانسیسی وزیر جان نوئیل بارو نے بھی یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدے پر نظرثانی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا: “غزہ کو ایک کھلی قبر میں بدل دیا گیا ہے۔ اندھی جارحیت اور امداد کی راہ میں رکاوٹیں بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ یہ سب بند ہونا چاہیے۔”
یہ یورپی ردعمل اس مغربی موقف سے بالکل مختلف ہے جو سات اکتوبر دو ہزار تیئس سے اب تک اسرائیل کی جنگ کو “دفاع” قرار دیتا رہا ہے۔ لیکن جب بچے بھوک سے بلکنے لگیں، جب ماں کی گود میں تڑپتا نوزائیدہ دم توڑ دے، تو شاید ضمیر بھی بیدار ہو جاتا ہے۔
اوکسفام میں فلسطینی علاقوں سے متعلق پالیسی کی سربراہ بشرى الخالدی نے کہا کہ موجودہ وقت میں صرف ایک ہی راستہ ہے: تمام گزرگاہوں کو فوری طور پر کھولا جائے، تاکہ ایک بھرپور، منصفانہ اور محفوظ انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو، جو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے ساتھ کی جائے۔
انہوں نے دو ٹوک کہا کہ محض چند علامتی قافلے کوئی پیش رفت نہیں، بلکہ ظلم کے خاتمے، انصاف اور جوابدہی کے بغیر یہ المیہ رکنے والا نہیں۔