غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)غزہ پر مسلط کی گئی طویل تباہ کن جنگ اور بےرحم محاصرے نے ماں بننے کے مقدس احساس کو بھی اذیت ناک عذاب میں بدل دیا ہے۔ ایک طرف بھوک سے نڈھال جسم، دوسری طرف اولاد کے چھن جانے کا مسلسل خوف ، آج غزہ کی ہزاروں مائیں غاصب فسطائی ریاست اسرائیل کی اس منظم پالیسی کا سامنا کر رہی ہیں، جس نے بھوک کو ایک خاموش مگر مؤثر گھناؤنے ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
جن ماؤں کی راتیں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر گزرتی تھیں آج وہی مائیں ایک قطرہ دودھ، ایک نوالے کے لیے در بدر بھٹک رہی ہیں۔ بازار خالی ہیں، گودام ویران ہیں اور بند سرحدی راستے صداؤں کو بھی دبا دیتے ہیں۔
یہ محض روزمرہ زندگی کی مشکلات نہیں رہیں ، اب یہ عورتوں کے اپنے جگر گوشوں سے بچھڑنے کا کرب ہے۔ ایسی زچگیاں جن میں ماں بھی بھوکی، بچہ بھی ، ہسپتال تک رسائی ایک خواب۔ آنکھوں کے سامنے دن بدن پژمردہ ہوتے بچے اور ماؤں کا بےبسی میں ٹوٹتا دل ، غزہ کی خواتین آج بس ایک ہی سوال کرتی ہیں: کیسے بچائیں اپنے بچوں کو موت کی گود سے؟
مارچ 2025ٰء کے آغاز میں جیسے ہی جنگ بندی کی پہلی مدت ختم ہوئی قابض اسرائیل نے اپنے فوجی حملے دوبارہ شروع کر دیے اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت کر دیا۔ سرحدی راستے مکمل بند اور بنیادی انسانی امداد ، خصوصاً خوراک کی فراہمی روک دی گئی۔
روٹی ہے، نہ کھانے کی کوئی سبیل
ایندھن ختم ہونے کے بعد تمام تنور بند ہو چکے ہیں۔ وہ مقامی مراکز بھی بند پڑے ہیں جہاں کبھی لاکھوں فاقہ زدہ افراد کو مفت کھانا ملتا تھا۔ بازاروں میں ضروری اشیاء ناپید ہیں، اور جو تھوڑا بہت بچا ہے، وہ اتنا مہنگا کہ عام شہری کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔
خوراک کے لیے جمع ہونے والے شہریوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے فاقے میں ڈوبے انسانوں کی تکلیف دہ حالت ایک دل دہلا دینے والے منظر میں بدل گئی ہے ۔ ایسا منظر جو ماضی کے بدترین محاصروں اور قحط کی یاد دلاتا ہے۔
ماں کی گود میں دم توڑتی جنان
یہاں کی ہر ماں کے پاس ایک دردناک کہانی ہے، جن میں سے ایک آیہ السکافی کی۔ صرف 21 برس کی یہ ماں فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کو بتاتی ہے کہ اس کی نومولود بیٹی “جنان” جنگ کے سائے میں پیدا ہوئی۔ ابتدا میں وہ صحت مند تھی، ماں کا دودھ پیتی رہی، لیکن جب محاصرہ سخت ہوا، خوراک کی قلت نے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آیہ کی آواز میں لرزش تھی جب وہ بولی ” دودھ تھا، نہ خوراک، میری بیٹی کمزور ہوتی گئی۔ آخرکار وہ دودھ بھی نہیں پیتی تھی اور مسلسل اسہال نے اسے نڈھال کر دیا۔ ہم نے اسے غزہ سے باہر علاج کے لیے لے جانا چاہا، مگر راستے بند تھے۔ تین مئی کو وہ میری گود میں دم توڑ گئی ، بھوکی، درد میں ڈوبی، آکسیجن مشین پر اور میں کچھ بھی نہیں کر سکی۔”
آدھا دودھ آج، آدھا کل
27 سالہ بسما عوض روز اپنی بیٹی کو مرتا دیکھتی ہے۔ اس کی بیٹی کو شکر کی ایک خاص قسم سے الرجی ہے اور اس کے لیے مخصوص دودھ پورے غزہ میں دستیاب نہیں۔ مایوس ماں کو پرانا دودھ پلانا پڑتا ہے اور وہ بھی معمولی مقدار میں تاکہ بچا کر رکھا جا سکے۔ ہر دن ایک نئی آزمائش ہے، اور ہر رات موت کے خدشے کے ساتھ کٹتی ہے۔
حمل کے ایّام، غذائیت کے بغیر
غزہ میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین بدترین غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 35 سالہ هـ۔ک جو نویں ماہ کی حاملہ ہیں صرف دال اور ابلے ہوئے آٹے کے پیسٹ پر گزارا کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “مجھے ڈر ہے میرا بچہ زندہ بھی پیدا ہوگا یا نہیں۔ جسم کمزور ہے، بال جھڑ رہے ہیں، چکر آتے ہیں اور نہ کوئی دودھ ہے نہ متوازن خوراک”۔
ایک سالہ ندا جو ابھی تک رینگ بھی نہیں سکی
تیس سالہ نعمت الکفارنہ کا دل دن رات لرزتا ہے۔ اس کی ایک سالہ بیٹی “ندا” رینگ سکتی ہے، نہ کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس کا وزن محض سات کلو ہے۔ نعمت بتاتی ہے کہ “میں خود اتنی کمزور ہوں کہ دودھ بھی نہیں پلا سکتی اور جو تھوڑا بہت دودھ دستیاب ہے، وہ بہت مہنگا اور نایاب ہے۔ ہر ماں آج اسی کرب سے گزر رہی ہے ،ہر گھر میں فاقہ، ہر دل میں خوف”۔
ایک منظم بھوک، ایک انسانیت سوز نسل کشی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 65 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اب تک 50 سے زیادہ بچے بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں، یہ ایک منظم قتل عام ہے ، ایک دانستہ نسل کشی جو قابض اسرائیل نے دو ملین سے زائد انسانوں پر مسلط کر رکھی ہے۔
یہ محض فلسطینیوں کا معاملہ نہیں — یہ انسانیت کا سوال ہے۔ کیا دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ کیا وہ ماں کی سسکیاں، معصوم بچوں کی دم توڑتی سانسیں اور روٹی کے ایک نوالے کی جنگ کو نظر انداز کرے گی؟ غزہ کی گلیوں میں آج صرف انسان نہیں مر رہے انسانیت دم توڑ رہی ہے۔