اسلامی تحریک مزاحمت –حماس- کے سیاسی شعبے کے نائب صدر اور فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور مصالحت حماس کی اولین ترجیح ہے، جبکہ صدر محمود عباس اور ان کی جماعت فتح اسرائیل کو بحران سے نکالنے کے لیے مصالحت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اتوار کے روز دمشق میں مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر موسیٰ مرزوق نے کہا کہ حماس فلسطین میں سیاسی مقاصد کے لیے مفاہمت نہیں کرنا چاہتی بلکہ قومی خدمت کے طور پر مصالحت کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کے ہاں حقیقی مصالحت اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ ایک عرصے کے دوران مصالحتی کوششوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے بعد صہیونی حکومت کو درپیش مشکلات اور بحران سے نکالنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔ حماس کے راہنما کا کہنا تھا کہ مفاہمت کو اسرائیل کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا فریڈم فلوٹیلا پر حملے اور غزہ کی ڈیڑھ ملین آبادی کو کھلی جیل میں تبدیل کرنے کی صہیونی سازش میں شریک ہونا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت فتح اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں ہونے والے روابط کی مخالف نہیں، تاہم اس ضمن میں تمام فلسطینی جماعتوں کو وہی موقف اختیار کرنا چاہیے جو فلسطینی عوام کے دیرینہ موقف کی عکاسی کرے۔ جمہوریہ مصر کی جانب سے مفاہمت کے سلسلہ میں تیار کردہ مفاہمتی مسودہ اسی وقت قابل عمل ہو سکتا ہے جب تمام فلسطینی دھڑے اس کے تمام نکات پر متفق ہوں۔ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ موجودہ مفاہمتی مسودے پر حماس کو اعتراضات ہیں، اعتراضات دور کرنے کے لیے حماس نے مصر اور فتح کو آگاہ کر دیا ہے لیکن کچھ لوگوں کو مصری مسودے کے سوا دنیا میں اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ یہی غیر لچکدار رویہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان اختلافات کو مزید گہرا کرنے اور مفاہمت کے عمل میں پیش رفت میں رکاوٹ ہے۔ ایک سوال پر حماس کے راہنما نے کہا کہ مصالحت کے معاملے میں تمام جماعتیں قومی مفاد کے نکتے پر متحد ہو سکتی ہیں، تاہم قومی مفاد کے تعین کے لیے ہر شخص اپنی اپنی آراء پیش کر رہا ہے اور ان میں سے بعض آرا قومی مفاد کے حق میں نہیں بلکہ اس سے متصادم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام فلسطینی جماعتیں مفاہمت میں شامل ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ لوگ مل کر کچھ کو مصالحت سے باہر کرنے کی کوشش کریں۔ مصالحت کے سلسلے میں قومی مفاد ہی کو اول ترجیح ہونی چاہیے۔ مفاہمت کے سلسلہ میں مصری کردار سے متعلق سوال پر حماس کے راہنما نے کہا کہ مفاہمتی مسودہ مصری کی نگرانی میں تیار ہوا، مصر کی جانب سے تمام فلسطینی دھڑوں کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک خوش آئند اور قابل قدر اقدام ہے۔ حماس مصری کردار کا خیر مقدم کرتی ہے تاہم حال ہی میں مصری وزیر خارجہ کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ حماس کے اعتراضات کو مفاہمت میں شامل نہیں کر سکتے یا مفاہمتی مسودے میں ترمیم نہیں کر سکتے، معاملات کو پیچیدہ کرنے کا باعث بنے گا۔ مصالحت کار کو آخری حد تک تمام دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چائیں۔ مفاہمت کے باب میں ترکی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ترکی کے موقف میں کوئی نئی تبدیلی نہیں آئی۔ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے بعد ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کے فلسطینیوں کی حمایت میں اختیار کیے گئے موقف کی وجہ سے ترکی کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ ترکی کا موقف مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ حماس اس کا بھرپور خیر مقدم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کا موقف باقی اسلامی اور عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔