غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل انییس کالامار نے عالمی برادری، بالخصوص یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف فوجی ہتھیاروں اور بھوک جیسے ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے غزہ کو “مکمل طور پر خوراک سے خالی” کر چکا ہے۔
پیر کے روز ایک پریس بیان میں کالامار نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ غذائی اشیاء، پانی اور ادویات کو غزہ میں داخل ہونے دیا جائے اور نسل کشی اور جنگی جرائم کے مرتکب عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ذاتی مشاہدات اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی فیلڈ رپورٹنگ کے مطابق غزہ میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کر چکا ہے، جس کی شدت دو مارچ سے عائد کیے گئے مکمل محاصرے کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔
کالامار کا کہنا تھا کہ خوراک اور زندگی کی تمام بنیادی ضروریات ختم ہو چکی ہیں اور اسرائیل کی جانب سے مارچ میں نسل کشی دوبارہ شروع کیے جانے کے بعد صورتحال مکمل تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ “ہم جانتے ہیں کہ لوگ خوراک، پانی اور ادویات کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارۂ صحت، عالمی خوراک پروگرام اور دیگر انسانی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ میں اب کھانے کو کچھ نہیں بچا۔”
کالامار نے اس حقیقت کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے بار بار یہ جملہ دہرایاکہ “غزہ میں اب کھانے کو کچھ نہیں بچاہے۔ غزہ کی مجموعی صورتحال “انتہائی ہولناک” ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ نسل کشی ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے جاری ہے”۔