غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے قابض اسرائیل کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس کے تحت غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم اسرائیلی سکیورٹی نگرانی میں کی جانی ہے۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیل نے دو ماہ قبل غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد خوراک، پانی اور ادویات سمیت تمام انسانی امداد بند کر دی تھی، جس کے نتیجے میں غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
اتوار کے روز اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا کہ اس کی تمام ایجنسیاں اور غزہ میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں قابض اسرائیلی منصوبے میں کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گی۔
ان تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہاکہ “ہم کسی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتے جو بین الاقوامی انسانی اصولوں کی پاسداری نہ کرے”۔
بیان میں مزید کہا گیاکہ “پچھلے نو ہفتوں سے اسرائیل نے امدادی اشیاء کی غزہ میں ترسیل کو روکے رکھا ہے، جس کے باعث تندور بند ہو چکے ہیں اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ اسرائیل اقوامِ متحدہ کے امدادی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کر رہا ہے”۔
تنظیموں کے مطابق قابض اسرائیل نے امدادی سامان صرف اپنے قائم کردہ مراکز کے ذریعے مخصوص فوجی شرائط کے تحت پہنچانے پر اصرار کیا ہے، جو کہ قابل قبول نہیں۔
اس صورتحال پر غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے عالمی برادری، اقوامِ متحدہ کے اداروں، انسانی اور بین الاقوامی تنظیموں سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سرحدی راستے کھلوائے جائیں، بچوں کے لیے دودھ اور غذائی سپلیمنٹ فوری اور باقاعدگی سے فراہم کیے جائیں اور اسرائیلی محاصرہ ختم کیا جائے۔
قابض اسرائیلی فوج گزشتہ 64 روز سے غزہ پر مکمل محاصرہ قائم کیے ہوئے ہیں، نہ صرف انسانی امداد بلکہ دوا اور خوراک کی فراہمی بھی بند ہے، جبکہ 18 مارچ کو جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد مسلسل 48 دن سے اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی “اونروا” نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی صورتحال تصور سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ اونروا کے مطابق مکمل محاصرہ اب نویں ہفتے میں داخل ہو چکا ہے اور اگر عالمی کوششیں فوری طور پر تیز نہ ہوئیں تو یہ انسانی بحران ناقابلِ تصور سطح پر پہنچ سکتا ہے۔
اونروا کے کمشنر جنرل فلیپ لازارینی نے انتباہ دیا ہے کہ اسرائیلی محاصرہ روزانہ کی بنیاد پر خاموشی سے مزید بچوں اور خواتین کی جانیں لے رہا ہے، جو فضائی حملوں کے علاوہ فاقے اور بیماریوں سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
غزہ کے ہسپتالوں کے مطابق مسلسل دو ماہ سے سرحدی راستے بند ہونے کی وجہ سے علاقہ قحط کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور وزارتِ صحت کے مطابق 91 فیصد آبادی سنگین غذائی قلت کا شکار ہے۔
بیکریاں بند ہو چکی ہیں، پانی ناپید ہے، اور 25 لاکھ سے زائد افراد اسرائیلی بمباری، قتل عام اور بدترین نسل کشی کے سائے تلے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔