نیو یارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوام متحدہ نے کہا ہےکہ قابض اسرائیلی حکام غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 18 مارچ سے اب تک 500,000 افراد دوبارہ جبری طور پر بے گھر کردیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ترجمان سٹیفنی ٹریمبلے نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً دو ماہ سے امداد داخل نہیں ہوئی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے کارکنوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ قابض حکام نے بدھ کے روز منصوبہ بند چھ میں سے صرف دو انسانی امدادی کارروائیوں کو گزرنے کی اجازت دی۔
اقوام متحدہ کے مطابق انسانی ہمدردی کی رسائی پر قابض اسرائیل کی طرف سے عائد پابندیاں ہسپتالوں کو طبی سامان فراہم کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہیں، جس سے زیادہ مریضوں کی صحت خطرے میں پڑتی ہے۔
دو مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کی کراسنگ بند کررکھی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں خوراک اور پانی سمیت ضروری سامان کے داخلے کو روک رکھا ہے، جس سے انسانی تباہی اور قحط میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کےرابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں 18 مارچ سے قابض فوج کی جانب سے نسل کشی کی جنگ دوبارہ شروع کرنے اور جنوری میں طے پائے عارضی معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں تقریباً 500,000 فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔
’او سی ایچ اے‘ نے زور دے کر کہا کہ “غزہ کی پٹی میں جاری جنگ شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے، جس میں موت، نقل مکانی اور اہم انفراسٹرکچر کی تباہی شامل ہے”۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ قابض فوج کوآرڈینیٹنگ مشنز کی منظوری سے انکار کررہی ہے۔
مکمل امریکی حمایت کے ساتھ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں فلسطینی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے، جس میں 167,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں اور 11,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔