غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہنما باسم نعیم نے کہا ہے کہ “تحریک ایک بار اور ہمیشہ کے لیے ایک جامع ڈیل پر بات چیت کے لیے تیار ہے، جس کے نتیجے میں ایک مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء، کراسنگ کھولنے اور تعمیر نو کے بدلے میں ایک سنجیدہ اور باعزت قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے”۔
بدھ کو ایک پریس بیان میں باسم نعیم نے زور دے کر کہا کہ ذاتی اور متعصبانہ وجوہات کی بناء پر اس سب میں رکاوٹ بنجمن نیتن یاہو اور ان کی انتہا پسند حکومت ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ “یہ حماس کا دیرینہ موقف ہے۔ اس کے بغیر کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔ نیتن یاہو جنگ کو طول دینے کے لیے اپنے لوگوں کے درمیان جو بھی وہم پھیلا رہا ہے اس کی قیمت ہر ایک کو ادا کرنا پڑے گی، خاص طور پر اسرائیلی قیدیوں کو بھی قیمت چکانا پڑے گی‘۔
انہوں نے زور دے کر کہاکہ “خوراک کے بدلے جزوی ڈیل کا دھوکہ اور نسل کشی کی تکمیل ماضی کی بات ہے”۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے فلسطینی عوام، عرب ممالک ، عالم اسلام اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کریں۔ حماس نے کہا کہ”17 اپریل کو فلسطینی، عرب اور بین الاقوامی سطح پر آزادی کے جائز حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر فلسطینی قیدیوں کو یاد رکھا جائے۔
حماس نے بدھ کے روز ایک پریس بیان میں کہا کہ فلسطینی قیدیوں کا دن ہر سال 17 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس بار ایک ایسے وقت میں منایا جا رہا ہےجب قابض صہیونی دشمن فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحیت اور نسل کشی کی جاری جنگ جاری رکھے ہوئے۔ فلسطینیوں کو ایک المناک حقیقت کا سامنا جہاں تقریباً 14,000 فلسطینیوںکو پابند سلاسل کردیا گیا ہے۔ ان میں تقریباً 200 بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کی پٹی سے قیدی جبری اغواء کیے گئے ہیں جن کا دشمن نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی جیلوں میں ہیں۔
حماس نے وضاحت کی کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کو انتہائی خوفناک نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 63 قیدی اور زیر حراست افراد کو قابض دشمن کے عقوبت خانوں میں بے رحمی سےتشدد کرکے شہید کیا جا چکا ہے، جن میں سے تازہ ترین شہید ایک بچہ ولید احمد تھا جسے جان بوجھ بھوکا پیاس رکھ کر جان سے مارا گیا۔ لید احمد کی شہادت سفاک صہیونی ریاست کا ایک سنگین جنگی جرم ہے۔ فاشسٹ قابض حکومت بھی غزہ کی پٹی سے حراست میں لیے گئے اور اغوا کیے گئے فلسطینیوں کے خلاف جبری گمشدگی کا اپنا جرم جاری رکھے ہوئے ہے۔
حماس نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی حماس کی اولین ترجیح رہے گی اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ “ہمارے مرد اور خواتین قیدیوں کے خلاف قابض ریاست کے جرائم ان کے عزم اور ارادے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کے مجرم سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ ایک وقت آئے گا جب غاصب صہیونیوں کو ان کے جرائم کی عبرت ناک سزا دی جائے گی‘۔
حماس قابض ریاست کو 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی سے اغوا کیے گئے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں اور حفاظت کے لیے اور قابض ریاست کی جیلوں میں ہمارے تمام قیدیوں کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ہم پھانسی کے جاری جرائم اور جان بوجھ کر قتل کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی خاموشی کی مذمت کرتے ہیں جس کا انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حماس نے مزید کہا کہ “دُنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح تحریک نے دشمن کے قیدیوں کی زندگیوں کا خیال رکھا ہے، اور ان کے ساتھ انسانیت اور تہذیبی اقدار کے ساتھ برتاؤ کیا ہے، جب کہ فاشسٹ قابض حکومت ہمارے مرد اور خواتین قیدیوں کے خلاف بدترین تشدد، جان بوجھ کر قتل اور مجرمانہ طرز عمل پر عمل پیرا ہے، یہ وحشیانہ طرز عمل بین الاقوامی انسانی حقوق اور تمام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے”۔
حماس نے انسانی حقوق اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے اور القدس میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی سے اغوا کیے گئے افراد کے خلاف قابض ریاست کے جرائم کو بے نقاب کریں۔ انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ مجرموں کی بین الاقوامی عدالتوں اور انصاف کےکٹہرے میں لائیں۔