Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

قابض اسرائیل سے منسلک مصنوعات کا بائیکاٹ: دس لاکھ بنگلہ دیشیوں باشندوں کا عہد

ڈھاکہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ہفتے کے روز 10 لاکھ سے زائد بنگلہ دیشی ڈھاکہ کی سڑکوں پر جمع ہو کر ملک کی سب سے بڑی غزہ یکجہتی ریلی میں شریک ہوئے اور اسرائیل سے منسلک مصنوعات اور اداروں کے بائیکاٹ کا عوامی حلف اٹھایا۔

ملک کے دارالحکومت کے رہائشی بنگلہ دیش اور فلسطین کے پرچم لہراتے ہوئے “مظاہرہ برائے غزہ” کے لیے بڑی تعداد میں مرکزی عوامی مقام سہروردی اودیان پہنچے اور “آزاد فلسطین”، “اسرائیلی جارحیت بند کرو” اور “اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو” کے نعرے لگائے۔

فلسطین یکجہتی تحریک بنگلہ دیش کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقریب میں سیاست دان، مشہور شخصیات، فنکار، شعراء اور مقبول سوشل میڈیا شخصیات شامل تھیں جنہوں نے عالمی رہنماؤں سے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی شہریوں کے قتلِ عام کے دیگر ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپیل کی۔

تقریب میں موجود سیاسی رہنماؤں نے غزہ پر اسرائیل کے مہلک حملے ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی احتساب اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جن میں 50,900 سے زائد افراد ہلاک اور 116,000 زخمی ہو چکے ہیں اور 20 لاکھ دیگر افراد کو بھوک کا سامنا ہے۔ اسرائیلی افواج نے خطے کے بیشتر بنیادی ڈھانچے اور عمارات تباہ کر دیں جبکہ انسانی امداد کی آمد روک دی ہے۔

ریلی کے دوران پیش کردہ مشترکہ اعلامیے میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ “نسل کشی کے خاتمے کے لیے مؤثر اور اجتماعی اقدام کریں”۔ خاص طور پر مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل سے تمام اقتصادی، فوجی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کریں، “صہیونی ریاست پر تجارتی ناکہ بندی اور پابندیاں عائد کریں” اور اسے بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کے لیے فعال سفارتی کوششیں شروع کریں۔

روزنامہ اخبار امر دیش کے ایڈیٹر اور اس تقریب کو منظم کرنے میں مدد فراہم کرنے والے محمود الرحمٰن نے اعلامیہ میں کہا، “ہم قابض اسرائیل سے تعلق رکھنے والی ہر مصنوعات، کمپنی اور طاقت کا بائیکاٹ کریں گے۔ ہم اپنے گھروں سے ابتدا کریں گے اور زبان، تاریخ، تعلیم، معیشت اور معاشرے میں اس عہد کے نقوش چھوڑیں گے۔”

بنگلہ دیش میں حالیہ تاریخ میں یہ سب سے بڑی فلسطینی یکجہتی ریلی تھی۔

محمود الرحمٰن نے عرب نیوز کو بتایا، “حقیقت میں آج دس لاکھ سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ پولیس کے مطابق شاید یہ 1.1 ملین تھے۔”

انہوں نے مزید کہا، “یہ ایک بہت بڑا اجتماع تھا لیکن بہت پرامن تھا۔ یہ پوری دنیا کے لیے ایک طرح کی مثال ہے۔ یہ انسانیت کے حق میں تھا۔ کیونکہ یہ صرف اسلام کا ہی سوال نہیں ہے – ہم اسرائیلی حکومت کی غیر انسانی نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ احتجاج انسانیت کے لیے ہے۔ ہم نے امت مسلمہ سے فلسطین کی آزادی کے لیے متحد ہونے کا تقاضہ کیا ہے۔”

مظاہرین نے حکومت سے بنگلہ دیشی پاسپورٹ میں “اسرائیل کے علاوہ” کی شق بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس نے شہریوں کو اسرائیل کا سفر کرنے سے روک دیا تھا۔ اگرچہ بنگلہ دیش کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن شیخ حسینہ کی سابقہ انتظامیہ نے 2021 میں یہ شق ہٹا دی تھی۔

ریلی کے شرکاء نے کہا کہ وہ پہلے ہی ہفتہ کے اعلان کے کئی پہلوؤں خاص طور پر بائیکاٹ کال پر عمل کر رہے ہیں۔

ڈھاکہ کے ایک تاجر ارمان شیخ نے کہا، “میں نے اسرائیلی جارحیت کے اس تازہ ترین دور کے آغاز سے ہی اسرائیلی مصنوعات خریدنا بند کر دی تھیں۔ میں نے کوکا کولا خریدنا بھی چھوڑ دیا تھا حالانکہ یہ یہاں ایک بہت مشہور و معروف مشروب ہے۔ یہ ایک فرد کے طور پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے کا میرا ذاتی طریقہ ہے۔ اس قسم کے بائیکاٹ سے یقیناً فرق پڑ سکتا ہے۔ عوام کی طاقت سے زیادہ مضبوط کوئی چیز نہیں ہے۔”

ایک ٹیچر نسرین بیگم نے کہا، وہ مقامی متبادل کا انتخاب کرنے کی بجائے عالمی برانڈز کے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ روابط سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا، “کاسمیٹکس خریدنے سے پہلے اب میں ہمیشہ ان کی اصل مقام کے بارے میں گوگل پر تلاش کرتی ہوں۔ اگر کسی چیز کا اسرائیل سے تعلق ظاہر ہو تو میں ان سے گریز کرتی ہوں۔”

انہوں نے مزید کہا، “اسرائیل سے منسلک اشیا کے لیے مناسب متبادل تلاش کرنا بہت مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی منڈی کی معیشت ہے۔ ہم دنیا میں کہیں سے کوئی بھی مصنوعات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سب ہماری ذہنیت اور عزم ہے۔ اسرائیلی جتنے مظالم کر رہے ہیں تو اگر میں ان سے منسلک اشیاء کی خریداری جاری رکھوں تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گی۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan