مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے اپنے موجودہ ہم منصب بنجمن نیتن یاہو پر اسرائیل کو ایک “بدعنوان اور انتہا پسند آمریت” کی طرف لے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے اسرائیل میں “آسان تباہی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا۔
نجی اسرائیلی چینل 12 کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں باراک نے نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ ” یاھو نے اپنے سیاسی اور قانونی بقا کے ذاتی مقاصد کے لیے جنگ چھیڑ ررکھی ہے”۔
باراک نے اپنے مضمون میں زور دے کر کہا کہ نیتن یاہو کے اقدامات “اسرائیل کو پاتال کی طرف لے جا رہے ہیں۔اس کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں”۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں جنگ کسی حقیقی سٹریٹجک مقصد کے بغیر چلائی جا رہی ہے، بلکہ صرف اور صرف احتساب کو ملتوی کرنے اور تحقیقاتی کمیٹی کو 7 اکتوبر کی ناکامیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جنگ کو وسعت دی جا رہی ہے”۔
انہوں نے وضاحت کی کہ “گذشتہ دو سالوں میں نیتن یاہو کے اقتدار کی حکمرانی عدلیہ کو کمزور کرنے، نگران اداروں کو جانبدار کرنے، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور حساس عہدوں پر کٹھ پتلیوں کو تعینات کرنے کے منظم انداز کو ظاہر کرتی ہے”۔
باراک نے تفصیلات فراہم کیے بغیر نیتن یاہو پر “ذاتی مقاصد کے لیے فوج کو استعمال کرنے کی کوشش” کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے فرائض جاری رکھنے کے لیے “نااہل” قرار دے اور انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے کام کرے۔ باراک نے اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ “بڑے پیمانے پر” پرامن سول نافرمانی میں حصہ لیں تاکہ “ریاست کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے”۔
انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام یہ کہہ کر کیا “نیتن یاہو نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے لیکن اسرائیل اسے شکست دے گا اگر ہم جان لیں کہ بہت دیر ہونے سے پہلے کیسے کام کرنا ہے”۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی تباہی کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے سابق وزراء اور حکام نے بیان دیا ہے کہ نیتن یاہو ذاتی فائدے کے لیے غزہ پر اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ اس لیے اس کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔