جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) انسانی حقوق کے آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قابض اسرائیلی حکام کے اقدامات فلسطینیوں کے قتل عام کا باعث بن رہے ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کی زندگیوں کی تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ “اگر وہ بموں یا گولیوں سے نہیں مارے جاتے ہیں تو وہ زندہ رہنے کے بنیادی ذرائع کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ دم گھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں۔ فرق صرف موت کے ذرائع اور رفتار کا ہے”۔
فلسطینی خبر رساں ادارے وفا نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب سے اسرائیلی فوج نے 18 مارچ کو نازک سیز فائر کی مکمل خلاف ورزی شروع کی ہے، مسلسل گولہ باری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور توپ خانے سے فائرنگ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ “غزہ میں اسرائیل کی جانب سے افراتفری کی کارروائیوں کے تناظر میں ماورائے عدالت قتل اور اجتماعی قبریں نسل کشی کے ارادے کا مزید ثبوت ہیں۔ بین الاقوامی تفتیش کاروں کو ابھی تک غزہ میں ان اور دیگر مقامات تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی ہے جہاں مظالم کا امکان ہے۔
ماہرین نے کہا کہ “اسرائیل کی پالیسیاں 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے جو کچھ ہم نے دیکھی ہیں اس سے کہیں زیادہ سخت ہیں، کیونکہ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے سمیت تمام فلسطینیوں کے خلاف اپنے نسل کشی کے حملے کو تیز کر دیا ہے”۔
ماہرین نے کہا کہ ریاستوں کی واضح ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنائیں،اسرائیل کی نسل کشی اور فلسطینیوں کے خلاف دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو روکیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ “یہ تمام ریاستوں پر واضح ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے لیے ان کی مسلسل مادی اور سیاسی حمایت، خاص طور پر ہتھیاروں اور ایندھن کی مسلسل منتقلی، نسل کشی کو روکنے کے لیے ان کی ذمہ داری کی خلاف ورزی کرتی ہے اور اس میں ملوث ہونے کا خطرہ ہے”۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ”جتنا طویل استثنیٰ برقرار رہے گا، اتنا ہی غیر متعلقہ بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشنز بن جائیں گے۔ “ایسا کرنے میں ناکامی مزید افراتفری، عدم استحکام، جارحیت اور تصادم کا باعث بنے گی، جس کی حتمی قیمت عام شہریوں کو ادا کرنی پڑے گی‘‘۔