Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

فلسطین برائے فروخت نہیں

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہےہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے ایسے بیانات داغ رہےہیں جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کئے جا سکتے ہیں۔
امریکی صدر کے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کےلئے اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔حالانکہ غزہ پر امریکی وصیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے ۔ گذشتہ دو دہائیوںسے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی تا کہ غزہ کو خالی کریں ۔
غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہو چکی ہے ۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آ کر آباد ہونے لگے ہیں ۔غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی در اصل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اوراس کے لئے انہوںنے ثابت کر دیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی ہم دیں گے۔ اور یہ قربانی انہوںنے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعہ خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بنا کر پیش کیا جائے تا کہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا امریکی بھرم باقی رہ جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی ا س مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکہ کی بالا دستی کے خاتمہ کو یقینی بنا کر دم لیں گے او ر طاقت کے مرکز کو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔
غزہ پر قبضہ کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے اس کے لئے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوںنے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی؟ کیا یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ کے تھا؟ آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے تاہم امریکی حکومت اس غزہ کے علاقہ کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی لیکن آخر یہ شہر کس کے لئے بنایا جائے گا ؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لئے ہیں ؟ لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑ کر چلے جائیں گے ؟ کیا امریکی تسلط اس قدر آسان ہو گا کہ امریکی حکومت آسانی سے غز ہ پر قبضہ کر لے گی؟حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیاجائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لئے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ غزہ ان کے لئے ایک تر نوالہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکہ کو انکار میں جواب دیا ہے جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنا کا اعلان کیا ہے ۔دوسری جانب یمن ہے جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کےلئے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہو گا۔
کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے ؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں از سر نو جنگ شروع ہو جائے جس کے لئے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دے گا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کےقابل بھی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دئیے جا رہے ہیں جس کے بعدامریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی کمزو ر ہو چکی ہے جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات او بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔
بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جو کئی دہائیوںسے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔ فلسطینیوںنے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدر کو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیاہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔اب امریکہ اس میدان میں آ کر غز ہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اوردہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔
یہاں پر ایک نقطہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پرامریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا ۔اگر غزہ نہیں رہا تو پھرکوئی بھی نہین بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی ۔تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود ا س خطر ناک کینسر کو کہ جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan