عمان (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اردن کے حکام نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کو 24 گھنٹوں کے اندر اردن سے رہائی پانے والی قیدی احلام تمیمی کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے جگہ تلاش کرنے پر زو ر دیا ہے۔ عمان کا کہنا ہے کہ اگر حماس نے اسے کسی دوسرے ملک منتقل نہ کیا تو اسے امریکہ کے حوالے کیا جائے گا۔
مارچ 2017ء میں کورٹ آف کیسیشن جو اردن کی اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ ہے نے عمان کی اپیل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی۔ اس فیصلےمیں احلام تمیمی کو امریکہ کے حوالے کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ احلام پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امریکیوں کو ہلاک کرنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔
العربی الجدید اخبار نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اردن نے حماس سے کہا کہ وہ خاتون قیدی جسے 2011ء کے وفا الاحرار معاہدے کے تحت اردن منتقل کیا گیا تھا کسی دوسرے ملک منتقل کرے۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ عمان نے دوحہ میں تحریک کو باضابطہ طور پر اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یا تو حماس رہائی پانے والی قیدی احلام التمیمی کے لیے جگہ تلاش کرے گی یا پھر اردن اسے سابق امریکی فیصلے کی بنیاد پر واشنگٹن کے حوالے کر دے گا۔
ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اردن نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اردن سے ملک بدر کیے گئے کسی بھی ایسے قیدی کو وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے جو اردنی شہریت نہیں رکھتے ہیں۔
قابض حکام نے 19 جنوری کو نافذ ہونے والے معاہدے کے پہلے مرحلے کے حصے کے طور پر اردنی شہریت کے حامل دو قیدیوں کو رہا کیا۔
اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ رہائی پانے والی تمیمی کے اہل خانہ گزشتہ پورے عرصے سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ حماس ان کی بیٹی کی فائل جو اردنی اور فلسطینی شہریت رکھتی ہے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر رکھے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنی پہلی مدت کے دوران خاص طور پر 2020 ءمیں اردن کی امداد روکنے پر غور کیا تھا۔ حالانکہ اردن عرب دنیا میں امریکہ کے سب سے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک ہے۔
امداد روکنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ قیدی احلام تمیمی کو حوالے کرنے پر مجبور کیا جائے۔احلام تمیمی پر اسرائیل نے 2001ء میں ہونے والے ایک بم دھماکے کا الزام عاید کیا تھا جس میں دو امریکی شہریوں سمیت 15 افراد کی جانیں لے لی تھیں۔
احلام التمیمی ایک فلسطینی صحافی ہیں اور حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ میں شامل ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ قابض اسرائیل کی جیلوں سے آزاد ہونے والی قیدی ہیں۔ اس میں شرکت کے بعد انہیں 16 عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔