نیو یارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السالم نے زور دے کر کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں خواتین کے قتل اور تولیدی صحت کو نشانہ بنانے کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
السالم نے اتوار کو ایک پریس بیان میں کہا کہ “فلسطینی خواتین پر اسرائیل کے حملے نسل کشی کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “جب اسرائیل کے اقدامات کو عام طور پر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کا خاص طور پر فلسطینیوں کی تولیدی صلاحیت کو نشانہ بنانا اس مقصد کو پورا کرتا ہے”۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “فلسطینی خواتین کو صرف اس لیے قتل کرنا کہ وہ خواتین ہیں، ایک جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے، نسل کشی کی روک تھام سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن بھی نسل کشی کی ایسی کارروائیوں کی ممانعت کرتا ہے جن کا مقصد ایک گروہ کے اندر تولیدی صلاحیت روکنا ہے۔
“جب ہم تمام چیزوں کو ایک ساتھ جمع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحت کے شعبے کی تباہی، نوزائیدہ بچوں کو ان کے تاریک انجام پر چھوڑ دینا، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے خوفناک حالات پیدا کرنا، یہ سب اسرائیلی نسل کشی کے تشدد کے لیے استعمال ہونے والے حربے ہیں، جن کا مقصد فلسطینی تولیدی عمل کے تسلسل کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے”۔
السالم نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے خواتین اور بچوں پر حملوں کے تباہ کن اثرات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران 800,000 خواتین کو زبردستی ان کے گھروں سے بے گھر کیا گیا ہے اور تقریباً 10 لاکھ خواتین اور لڑکیاں شدید خوراک کی کمی اور خورک کے عدم تحفظ کا شکارر ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی عہدیدارنے کہا کہ “غزہ کی صورتحال کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ناکافی طبی دیکھ بھال، نفسیاتی صدمے اور بمباری کی وجہ سے اسقاط حمل کی شرح میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ صرف نسل کشی کے بارے میں نہیں ہے، یہ جان بوجھ کر قتل اور جنگ میں قانونی حدود کے تصور کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بارے میں بھی ہے”۔