غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے منصوبہ بند جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی جو اتوار 19 جنوری سے نافذ العمل ہو گا۔
اس سے پہلے نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے ایک اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی منظوری میں آخری لمحات کی رکاوٹیں ہیں۔
اسرائیلی قانون کے مطابق فلسطینی قیدیوں کو باضابطہ ووٹنگ کے ذریعے حکومتی منظوری کے بغیر جیل سے رہا نہیں کیا جا سکتا اور اگر یہ معاہدہ منظور ہو جاتا ہے تو عوام کو عدالت میں اپیل دائر کرنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دستیاب ہو گا۔
نیتن یاہو کو دونوں ووٹوں میں اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کی توقع ہے۔چاہے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر کی جماعتوں کے وزرا بھی معاہدے کے خلاف ووٹ دیں۔
نیتن یاہو کو اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے
بین الاقوامی دباؤ کے درمیان اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک بہت ہی پیچیدہ اندرونی مخمصے کا سامنا ہے جو ان کے حکمران اتحاد کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر پہنچنے کے باوجود قومی سلامتی کے وزیر اور جیوش پاور پارٹی کے رہنما ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ اور مذہبی صہیونیت پارٹی کے رہنما بزلئیل سموٹرچ دونوں اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ معاہدے کو اپنےسیاسی مقاصد کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
بن گویر نے اس معاہدے کو “ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ” قرار دیا جب کہ سموٹریچ اسے “اسرائیلی قومی سلامتی کے لیے تباہی” قرار دیا۔ دونوں غزہ پر جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں جو اپنے 15ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ابھی تک غزہ میں جنگ بندی کے اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔