غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی مصیبت زدہ مائیں اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور شہید ہونے والے عزیز و اقارب کو ایمان ، پختہ یقین اور پہاڑ جیسے صبرو استقلال کے ساتھ نصہیونی جرائم کے طوفان سے نہ ہلنے والے ٹھوس پہاڑوں کی طرح شہیدوں اور شہیدوں کو الوداع کرتے ہوئے کس صبر کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا جگر ہے کہ وہ مسلسل 460 دن سے جاری ننگی جارحیت کے دوران 150,000 سے زیادہ شہداء اور زخمیوں کو اٹھا چکی ہیں۔ صہیونی دشمن اپنی تمام تر رعونت اور سفاکی کے باوجود ان کے جذبہ حریت کو نقصان نہیں پہنچا سکا۔
اپنے بچوں کی مسلسل شہادتوں اور اپنے جگر کوشوں کے جنازے اٹھاتی بہادر ماؤں کو صدمے کی حالت میں یہ دعا کرتے دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ ’یا اللہ میرا شہید بیٹا اور وحشیانہ جارحیت میں شہید ہونے والا آخری بچہ ہو اور اس کی شہادت کے بعد کسی معصوم کے خون کا ایک قطرہ بھی غزہ میں نہ گرے‘‘۔
درجنوں مسلمان اور عرب ممالک کی حکومتوں، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے باوجود غزہ کی مائیں تنہا ہیں۔ ان کا اللہ کے سوا کوئی سہارا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی سے بھی مدد کی فریاد نہیں کرتیں۔
غزہ کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی واحد دعا یہ ہے کہ ’اے ہمارے رب، ہمارے زخمیوں کو شفا عطا فرما۔ اے رب ہمارے شہید بچوں، بھائیوں اور بزرگوں کو اعلیٰ علیین میں مقام اور مرتبے عطا فرما، اللہ میرا شہید بیٹا یا بھائی اس ظلم وجبر کی مشین میں شہید ہونے والا آخری شہید ہو اور اس کی شہادت کے بعد غزہ کی سرزمین پر کسی اور بے گناہ اور معصوم بچے کے خون کا ایک قطرہ بھی نہ گے‘۔
غزہ کی سوگوار مائیں خدا کی مدد اور نصرت سے مایوس نہیں۔ وہ بڑی سےبڑی مصیبت کے باوجود اور اپنی دعائیں جاری رکھتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں خدا سےاس کا بہتر صلہ پانے کی طلب گارہیں۔
دعائیں کرنے والی ماؤں میں ایک ایسی ماں بھی ہیں جن کے تمام کم سن بچے اسرائیلی دشمن کی جارحیت میں شہید ہوگئے۔ اس نے اپنے بچوں کی شہادت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ کریم میرے بچوں کی شہادت کے بعد کسی اور ماں کو یہ دکھ نہ دینا۔
ایک دوسری خاتون نے اپنی حاملہ جواں سال بیٹی کی شہادت پر بھی ایسی ہی دعا کی۔
ایک اور ماں نے اپنے بیٹے کی شہادت پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سوچتی تھی کہ میں غزہ شہر میں اپنے لخت جگر کے ساتھ لوٹوں گی دشمن نے مجھ سے میرا بچہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔
اس نے آہ وفریاد کرتے ہوئے کہا کہ”کاش ہم ایک ساتھ غزہ واپس جاسکتے میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی”۔
یوں غزہ میں غم، تکلیف اور درد کی داستانیں صہیونی جارحیت کے تسلسل سے ختم نہیں ہوتیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ تاریخ خون، قربانیوں اور عزیزوں کے آنسوؤں سے لکھی گئی افسانوی استقامت کی داستانوں سے لکھی جاتی ہے۔
اس خونی نسل کشی کے دوران اب تک تقریباً 155,000 بے گناہ اور نہتے فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ 10,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ پوری پٹی کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کے باشندے منظم پالیسی کے تحت قحط سے دوچار ہیں۔