ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے لبنان پر جنگ کے آغاز پر اپنے اہداف بیان کئے تھے ۔ ان اہداف میں شمالی مقبوضہ فلسطینی اراضی کو محفوظ بناناتھا تاکہ صہیونی آباد کار واپس آئیں جن کو حزب اللہ نے جوابی کاروائیوں میں فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ تاہم اسرائیل ناکام رہا ہے۔
غاصب اسرائیل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود کہ حزب اللہ کے بہت سے سینئر رہنماؤں کو قتل کیا گیا لیکن حزب اللہ غیر مسلح نہیں ہوئی۔
غاصب اسرائیل کی امیدیں اور ارادے تھے کہ وہ لبنان کے اندر حزب اللہ کے خلاف خانہ جنگی شروع کر دیں، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور یہاں بھی اسرائیل کو ناکامی کا سامنا ہوا ۔
غاصب اسرائیل حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے پیچھے دھکیلنا چاہتا تھا تاکہ شمالی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کو حزب اللہ کی جوابی کاروائی سے محفوظ بنایا جا سکے لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں اسرائیل یہاں بھی ناکام ہو گیا۔
جہاں تک لبنان اور مزاحمت فلسطین کا تعلق ہے اس بارے میں بھی چند اہم نکات پیش خدمت ہیں۔
جنگ بندی کے اعلان سے پہلے ہی لبنانی لوگ جنوب میں واپس جا چکے ہیں، جب کہ صہیونی آباد کار شمال فلسطین میں واپس نہیں آئے ہیں۔ لبنانی لوگ شہید سید حسن نصر اللہ کے پوسٹر اٹھا کر واپس آئے ہیں اوروہ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ شدید قاتلانہ حملوں کے باوجود، حزب اللہ نے دکھایا کہ وہ کس طرح ثابت قدم ہے اور اپنے ڈھانچے کو بہت تیزی سے دوبارہ بنانے اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے قابل ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ وہ تل ابیب پر حملہ کرنے میں کس قدر کامیاب رہے جنہوں نے غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ غاصب ریاست اسرائیل کے خلاف کارروائیاں تیز ہو گئیں۔
حزب اللہ نے اپنی موجودگی برقرار رکھی اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اب کبھی بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرے گی، اس نے عالمی سطح پر اپنا امیج کھو دیا ہے، حزب اللہ نے مغربی ایشیائی خطے سے باہر بھی بہت بڑی حمایت حاصل کی ہے۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ فلسطینی پرچم لہرائے جائیں گے جنہوں نے غاصب صیہونی حکومت اور ان کے سرمایہ کاروں کو دھچکا پہنچایا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ہیبت تباہ ہو چکی ہے، ساتھ ہی حماس نے 7 اکتوبر، حزب اللہ، انصار اللہ ، عراقی مزاحمت اور ایران نے صیہونی غاصب وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کے لیے حالات کبھی پہلی جیسے نہیں ہوں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ جب تک غزہ میں جارحیت ختم نہیں ہوتی جنگ بندی نہیں ہو گی۔
شہید سید حسن نصر اللہ نے 7 اکتوبر کے ایک دن بعد غزہ کی حمایت کے لیے محاذ میں داخل ہوئے۔ حزب اللہ اور لبنانی عوام نے فلسطین کی حمایت کے لیے اپنا خون، پسینہ، جوانی اور جانیں فرنٹ لائن پر قربان کر دیں، انہوں نے ہزاروں شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا جب کہ وہ خاموشی سے بیٹھ سکتے تھے۔
شہید سید حسن نصر اللہ اللہ کی طرف لوٹ گئے، موجودہ رہنما ان کے بزرگ شیخ نعیم قاسم ہیں، اس لیے وہ قیادت کے انچارج ہیں۔ اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حزب اللہ کی قیادت کی ایک اجتماعی کوشش ہے۔اور صرف وہی لوگ جو اس معاملے کے بارے میں اس صورتحال کی تمام تفصیلات، منصوبہ بندی اور پردے کے پیچھے جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں۔
جہاں تک جنگ بندی کا تعلق ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غزہ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔
یاد رکھیں جنگ بندی مستقل نہیں ہو گی۔ صیہونیوں پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اب بھی کچھ عرصہ قبل جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کے بعد بنت جبیل پر حملہ کیا گیاتھا۔ جب کہ دشمن کسی بھی معاہدے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس سے حزب اللہ کی انتقامی کارروائیوں کے لیے دروازے کھلے رہتے ہیں۔
کاغذ پر تو یہ مستقل معلوم ہو سکتا ہے، لیکن یاد رہے کہ کاغذ پر صہیونی غاصب حکومت بھی بہت سے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے لیکن وہی کاغذات بے کار اور اہمیت نہیں رکھتے، جہاں کوئی اثر نہیں ہوتا۔
غزہ کبھی تنہا نہیں رہا، اسے ہمیشہ ایران، شام، حزب اللہ، انصار اللہ اور عراقی مزاحمت کی حمایت حاصل رہی۔
2006 کی جنگ بہت سے لوگوں کے سوچنے کے ساتھ ختم ہوئی کہ حزب اللہ پسپائی اختیار کر لے گی اور غیر مسلح ہو جائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئی۔
حالیہ جنگ میں 60 دن کی زمینی کارروائیوں میں، اسرائیل جنوبی لبنان میں اتنی گہرائی میں داخل نہیں ہوا جتنا کہ 2006 میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا، جب وہ بنت جبیل کے اندر سے لڑے اور خیام پر قبضہ کر لیا تھا ۔
ان شہداء کو سلام جنہوں نے اپنے خون سے فتح کی راہ ہموار کی.. اور ہم لبنانی عوام اور مزاحمت کاروں کو صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کے خلاف ایک اور فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
انشاء اللہ جلد فتح فلسطینیوں کی بھی لکھی جائے گی۔