قاہرہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) مصر کے سابق وزیر خارجہ عمرو موسی نے کہاہے مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی سیاسی میز سے ہٹانا سات اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کا باعث بنا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مغربی اور امریکی پالیسیاں فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے اسی طرح جاری رہیں تو خطے میں آٹھ اکتوبراور نو اکتوبر جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
عرب لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا کہ سات اکتوبر 2023ء کے واقعے کی وجہ اور مزاحمت کے وجود کی وجہ اسرائیلی قبضہ ہے۔
عمر موسی نے مصری اخبار “المصری الیوم” کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ “اگر مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی ایجنڈے سے خارج کیا گیا اور مسئلے کی عالمی ایجنڈے میں مسلسل عدم موجودگی ایک بار پھر جاری رہی توآٹھ اکتوبر پھر ہو گا۔ اگر یہ دوبارہ مسلط کیا گیا تو پھر نو اکتوبر ہوگا۔ اگر مغربی سفارت کاری نے مسلط کرنے کی کوشش کی تومسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے ناقابل تلافی مسائل کا باعث بنے گا اور خطےمیں استحکام کے حصول کی تمام کوششیں رائے گاں جائیں گی۔
سابق عرب سفارت کار نے زور دے کر کہا کہ قابض اسرائیل “امن اور استحکام کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ تسلط اور قبضے کے بارے میں بات کرتا ہے۔ نئے مشرق وسطیٰ کے بارے میں تمام بین الاقوامی فورمز میں نیتن یاہو کے الفاظ اسی بنیاد پر ہیں۔ یہ عرب دنیا کے عوام کی توہین ہیں۔
عمرو موسیٰ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر فلسطینیوں کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں۔ جن میں سب سے اہم فلسطینی ریاست کا قیام ہے یہ بڑے انتشار کا ایک نسخہ ہے اور عرب معاشرے اور عرب نوجوان اس بات کو قبول نہیں کر سکتے۔
انہوں نے عرب ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ نئی امریکی انتظامیہ سے بات کریں۔ ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کریں کہ فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام سےپہلو تہی برتنے سے افراتفری پھیلے گی اور عرب معاشرے اور نوجوان اس بات کو قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے ہم اس سے اتفاق نہیں کر سکتے”۔
السنوار کی شہادت کے بارے میں عمرو موسیٰ نے کہا کہ اگر السنوار چلا جائے یا حماس خود بھی چلی جائے تب بھی مزاحمت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک قبضہ موجود ہے۔ اسرائیل غلبے اور تسلط کے لیے کام کرتا ہے۔ انہوں نے عرب لیگ کے ملوث ہونے کی تردید کی لیکن کہا کہ یہ عرب کی کمزور پوزیشن کی عکاسی کرتا ہے۔
عمرو موسی نے کہا کہ “مصر کا اپنا وزن ہے اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو بھی ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ اگر ہم نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے میں ایماندار اور بے تکلف نہیں ہیں تو ہم ایسے راستوں پر گامزن ہوں گے جو اچھے نہیں ہیں لیکن مجھے مصر اور سعودی عرب پر بھروسہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس امریکی میز پر ایک اچھی تجویز ہوگی۔ یہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کے مصری انکار پر مبنی ہے۔
موسی نے مزید کہا کہ “ہم مصر میں مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے میں حصہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں، دوسری طرف میں سعودی ولی عہد اور دیگر سینئر سعودی سفارت کاروں کے بیانات کا حوالہ دیتا ہوں جنہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کا مطلب فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔