رام اللہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی انسانی حقوق کے ایک مرکز نے قابض اسرائیلی حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ رملہ جیل میں قید فلسطینی خاتون رہ نما خالدہ جرار کو جبر اور بدسلوکی کی ایک منظم مہم کا نشانہ بنا رہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔
قیدیوں اور سابق اسیران کے حقوق کے لیے حنظلہ مرکز نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ پاپولر فرنٹ کی رہ نما کو قابض صہیونی ریاست کی جیلوں میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ وہ مسلسل 93 دن سے قید تنہائی کا شکار ہیں۔ان پر تشدد کیا گیا ہے۔ جبر اور بدسلوکی کی منظم مہم کا نشانہ بنایا گیا ہے جس ان کی جان کو خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیر حراست خالدہ جرار “ایک تنگ سیل میں قید ہیں۔ اس میں وینٹیلیشن کی سہولت نہیں۔ ان کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے کہ پانی اور وضو کی سہولت نہیں۔ ان کا حراستی کمرہ قبر کے گڑھے کی طرح ہے‘‘۔
مرکز نے مزید کہا کہ ” سیاسی اور سماجی رہ نما خالدہ جرار کو دروازے کے پاس لیٹنے کی جگہ دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ آکسیجن کی کم سے کم مقدار کے ساتھ سانس لے سکتی ہیں۔ یہ ان پر بدترین ظلم کی عکاسی کرتا ہے‘۔
خنظلہ سینٹر نے قیدی خاتون رہ نما خالدہ جرار اور قابض اسرائیلی دشمن کی جیلوں میں موجود تمام قیدیوں کی جان بچانے کے لیے فوری بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے اداروں کی مداخلت کا مطالبہ کیا۔
خالدہ کو 26 دسمبر کو مقبوضہ مغربی کنارے کے وسط میں واقع شہر رام اللہ ہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ان کے خلاف انتظامی نظر بندی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
خالدہ جرار مغربی کنارے کی اہم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی قابض اسرائیلی جیلوں میں متعدد بار قید رہ چکی ہیں۔
سنہ 2019ء اور 2021ء کے دوران حراست میں رکھا گیا تھا۔ اس دوران ان کی جوان سال بیٹی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئی تھیں مگر خالدہ کو اپنی بیٹی کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے اعداد و شمار کے مطابق قابض حکام 97 خواتین قیدیوں کو اپنی جیلوں میں قید کیے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر دامون جیل میں ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس سمیت مقبوضہ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے 11700 فلسطینیوں کو سات اکتوبر2023ء کے بعد گرفتار کیا گیا۔