پیرس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فرانس کی ’پرائیڈ فرانس‘ پارٹی کے رہ نما جین لو ملینچون نے اس منطق پر اپنے غصے کا اظہار کیا کہ جو بھی غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے جاری فلسطینی نسل کشی کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے اس پر فوری طور پر یہود دشمنی کا الزام تھوپ دیا جاتا ہے۔
اپنے یوٹیوب چینل پرمنگل کی شام پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو کلپ میں سابق صدارتی امیدوار نے اپنی پارٹی پر باقاعدگی سے کی جانے والی تنقید کا ذکر کیا۔ انہوں نے ’بدعنوان سیاسی میڈیا ماحول اور نقصان دہ ماحولیاتی نظام‘ کی مذمت کی گئی جو پراؤڈ فرانس پارٹی کے اراکین کو نقصان پہنچانے کے لیے شروع سے تخلیق کیا گیا تھا‘‘۔
فرانسیسی اخبار لی فیگارو نے کہا کہ میلینچون جن کی پارٹی نے سات اکتوبر 2023ء کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے بعد یہود دشمنی کے خلاف عظیم مارچ میں شرکت نہیں کی پر وزیر داخلہ برونو ریتائیو نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے “اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ پر اکسانے کرنے” پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ پراؤڈ فرانس پارٹی کی نمائندہ میری میسمور کی طرف سے شائع کردہ ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے ایمسٹرڈیم میں مکابی تل ابیب ٹیم کے حامیوں پر حملے کا جواز قرار دیا اور ان پر یہود دشمنی کا الزام لگایا۔ یہ الزام صرف اس لیے لگایا گیا کیونکہ وہ نسل پرستانہ سرگرمیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہیں۔
اخبار کے مطابق فرانسیسی وزیرنے پیرس میں پبلک پراسیکیوٹر کوایک رپورٹ پیش کی جس میں رکن پارلیمنٹ پر حملے اور تنقید پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ میلینچون نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جو کوئی بھی بنیامین نیتن یاہو کی نسل کشی کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے اسے فوری طور پر یہود دشمنی کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔
اخبار کے مطابق Jean-Luc Mélenchon نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان کےان کی پارٹی کے کئی اراکین کو اپنے فون نمبر تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ انہیں دن رات ہراساں کیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ کو جسمانی طور پر دھکے دیے گئے۔ پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں”۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے”۔ وہ ایمریک کارون، تھامس پورٹس اور لوئس بویارڈ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کا حوالہ دے رہے تھے۔
پارلیمنٹ کے سابق رکن نے اپنے حامیوں سے کہا کہ “کسی بھی طرح سے اس ماحول میں حصہ نہ لیں۔ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرائیڈ فرانس کےرکن پارلیمنٹ مشرق وسطیٰ کی جنگ کے حوالے سے اپنی ہر بات میں اعتدال پسندی کو برقرار رکھتے ہیں”۔ امریکی حمایت سےسات اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیلی نے غزہ کی پٹی پر جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں 146,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ 10,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔