Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

سربکف لڑتے السنوار اپنی شہادت کے بعد دشمن کو رسوا کرگئے

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ’طوفان الاقصیٰ‘ معرکے کے ایک سال کے دوران قابض صہیونی فوج نے نسل کشی کے تمام ریکارڈ توڑےاور مزاحمت کو کچلنے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا۔ اس المناک جنگ کے دوران یحییٰ السنوار شہید صہیونی دشمن کا سب سے بڑا ہدف تھے۔ دوسری طرف بہادر مجاھد یحییٰ السنوار سربکفن لڑتے، دشمن کو پسپا کرتے اور انہیں ہلاک اور زخمی کرتے میدان جنگ میں موجود رہے۔ اس معرکے کے دوران آخر کاروہ جنوبی غزہ میں تل السلطان میں دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

جدید ترین جاسوسی کے آلات اورامریکی و مغربی فوجی مدد کے باوجود قابض فوج ایک سال تک السنوار تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ دشمن فوج ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتی تھی کہ السنوار سرنگوں میں یا قیدیوں کے درمیان چھپا ہاو ہے اور اس نے انہیں ڈھال بنا رکھا ہے مگر دشمن کے ساتھ دو بہ دو لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے انہوں نے دشمن کے اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کردیا اور یہ ثابت کیا کہ ان کی جنگ میں کسی کو ڈھال بنا کر لڑنے کا کوئی تصو نہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیا ہاگاری نے اعتراف کیا کہ السنوار کےقریب کسی یرغمالی کا کوئی وجود نہیں ملا ہے۔

ہاگاری نے کہا کہ “ہمیں نہیں معلوم تھا کہ السنوار وہاں موجود ہیں۔ ہم نے اسے عمارتوں میں سے ایک مسلح شخص سمجھا اور اس کی مزید چھان بین کے لیے ڈرون کوبھیجا۔ انہیں  ڈرون پر لکڑی  پھینکتے ہوئے دیکھا گیا”۔ شہادتقابض نے السنوار کے آخری لمحات کی ایک ویڈیو شائع کی اور یہ دعویٰ کیا وہ مزاحمت کو اخلاقی طور پر دھچکا لگا رہا ہے۔

دشمن سے لڑنے والے مجاھد ہوئے

طوفان الاقصیٰ کے منصوبہ ساز، حماس کے سربراہ یحییٰ السنوارکی لیک ہونے والی تصویر نے انہیں اپنے آخری لمحات میں فوجی جیکٹ پہنے، آخری سانس تک غاصب قابضوں سے لڑتے ہوئے دکھایا، حتیٰ کہ ان کا خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے کٹے ہوئے پاؤں کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ یہ وہ بہادر انسان تھا  جو پیچھے نہیں ہٹا، دشمن کے ساتھ نہیں جھکا اور بزدلوں کی طرح چھپ کر وار نہیں کیا بلکہ صہیونی دشمن کے مکروہ پروپیگنڈے کے برعکس میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہادت کی منزل پرپہنچا۔

اسرائیل اپنے سیاہ پروپیگنڈے کے آلات کے ساتھ ہمیشہ یہ دعوی کرتا رہا کہ اس کا اولین مطلوب شخص عام شہریوں کے درمیان چھپا ہوا ہے۔اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے آخری لمحوں میں بھی اس کا مقابلہ کیا۔ اسی نے ڈرون کو ایک ٹکڑے سے مار گرانے کی کوشش کی۔ اس تاریخی لمحے میں بھی وہ مزاحمت کررہا تھا۔

جنگی مقامات میں منتقلی

حماس نے اپنے بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ کمانڈر السنوار تمام جنگی پوزیشنوں کے درمیان آگے بڑھ رہے ہیں، ثابت قدم ہیں اور غزہ کی قابل فخر سرزمین پر تعینات ہیں۔ وہ سرزمین فلسطین اور اس کے مقدسات کا دفاع کر رہے ہیں اور استقامت، صبر، اتحاد اور مزاحمت کے جذبے کو ابھار رہے ہیں۔

قائد کا انجام شہادت کے ساتھ متوقع تھا، لیکن جنگ میں اس کی شہادت کا انداز بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ اس نے اپنے ارادے اور عزم کے ساتھ اس کا انتخاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے عزت بخشی۔

شہید رہنما یحییٰ السنوار ایک مجاہد کے طور پر رہتے تھے۔ انہوں نے نوجوانی سے جہادی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے “مجد” کے نام سےایک جہادی تنظیم قائم کی اور بعد میں  حماس کے اسلامک بلاک کے پلیٹ فارم سے اسلامی یونیورسٹی میں طلبا سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

انہوں نے 23 سال اسیری میں گزارے۔ صہیونی جیلر کو زیر کیا۔ معاہدے میں جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنی قربانی، منصوبہ بندی اور جہاد جاری رکھا۔ وہ  حماس کی قیادت میں کئی عہدوں پر فائز رہے۔اسماعیل ھنیہ کی شہادت کے بعد وہ حماس کےسیاسی شعبے کے سربراہ بن گئے۔

طوفان الاقصیٰ کی انجینئرنگ

کمانڈر السنوار پر قابض بزدل دشمن نے کئی قاتلانہ حملے کیے مگر وہ اپنی شہادت تک ہر وار سے بچ جاتے۔ان پر 11 اپریل 2003ء کو غزہ کے جنوب میں واقع شہر خان یونس میں اپنے گھر کی دیوار میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی کوشش اور مئی 2021 میں چوتھی اسرائیلی جنگ کے دوران ایک اور حملہ بھی کیا گیا۔

شاید طوان الاقصیٰ آپریشن میں ان کی شراکت اور صہیونی وجود کو ہلا کر رکھ دینے والے آپریشن کے معمار کے طور پر ان کی وضاحت اس شخص کی باعزت زندگی کے سب سے نمایاں مقام تھے۔ وہ یقینی طور پر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ  حماس میں قائدانہ عہدہ ایک اہم مقام ہے۔ تفویض اور اعزاز نہیں کیونکہ تحریک کے قائدین جدوجہد کے طویل مراحل میں شہید بن کر ابھرتے ہیں۔ وہ الشیخ احمد یاسین کی راہ پر چلے اور جان سے گذر گئے۔

خدا کے نزدیک ان کا شہید ہونا محض ایک اتفاق یا توقع نہیں ہے، بلکہ ایک خواہش اور تمنا ہے جس کا اعلان ابو ابراہیم نے 3 سال قبل ایک جلسہ عام میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ “دشمن اور قابض مجھے سب سے بڑا تحفہ دے سکتے ہیں۔ مجھے قتل کرکے میری شہادت کی تمنا اور آرزو پوری کرسکتے ہیں۔ آج میری عمر 59 سال ہے، میں کورونا، فالج، روڈ ایکسیڈنٹ سے مرنے کے بجائے ایف-16 سے شہید ہونا پسند کروں گا‘‘۔

انہوں نے اپنی اس آرزو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمر میں میں سچے وعدے کے قریب آ گیا ہوں اور میں شہید ہو کرہمیشہ جاوداں ہونا پسند کروں گا۔

السنوار کو اس طرح شہید کیا گیا جب وہ اپنی فوجی وردی پہن کر پوری طاقت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور وہ کسی سرنگ میں چھپے نہیں تھے جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بار بار کہا تھا۔

فتح کی تصویر

جس طرح سنوار نے طوفان الاقصیٰ کے دوران دشمن کے ناقابل تسخیر ہونے کے گھمنڈ کو پاش پاش کیا۔ اسی طرح انہوں نے ان کو اپنے آخری لمحات میں ان تمام فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کے باوجود فتح کی وہ تصویر دینے سے بھی محروم کردیا۔ علاقائی خاموشی کے بدلے بڑی بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت کے باعث یہ بڑی فوج اپنے مزاحمتی دشمن کو محض اتفاقاً اور جھڑپوں کے اگلے دن ہونے والے کومبنگ آپریشن کے دوران قتل کرنے میں ناکام رہی۔ وہ حیران تھی کی السنوار ان کے سامنے لڑ رہے ہیں۔

قابض اسرائیلی فوج نے اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ السنوار کے آخری لمحات شائع کیے ہیں، جب وہ رفح شہر کے جنوب میں قابض فوج کے ساتھ جھڑپوں کے بعد شہید ہو ئے۔

اسرائیلی کہانی کے مطابق قابض افواج نے ان افراد کی شناخت نہ کرسکی۔ ان سے جھڑپ میں پہل کی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شہید ہونے والے السنوار ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan