غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے پولیٹیکل بیورو کے ایک رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ ان کی جماعت امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے اس بیان کو مسترد کرتی ہے کیونکہ جماعت کو پوری طرح معلوم ہے کہ قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
حسام بدران نے وضاحت کی کہ “حماس اور فلسطینی دھڑے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ کسی بھی معاہدے کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے علاوہ ایک جامع جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلا، بے گھر افراد کی واپسی، اور تعمیر نو کا حصول ضروری ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بلنکن کے دورے پر اعتماد نہیں ہے اور کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے نیتن یاہو پر شدید امریکی دباؤ کی ضرورت ہے۔
حسام بدران نے مزید کہا کہ حماس مذاکرات کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ حماس ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کی خواہشمند ہے جس سے ہمارے لوگوں کی تکالیف ختم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو اور اس کی انتہا پسند حکومت جان بوجھ کر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ حماس امریکی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست لیکن ثالثوں کے ذریعے بات چیت کرے گی کیونکہ یہ ایک غیر جانبدار فریق نہیں ہے بلکہ جنگ میں شامل ہے۔
بدران نے کہا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ نیتن یاہو پر خاصا دباؤ ڈالے، خاص طور پر چونکہ حماس اب بھی اس فارمولے کے لیے پرعزم ہے جو دو جولائی کی دستاویز میں بیان کیا گیا ہے۔