تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی مزاحمت استوار ہو چکی ہے۔ ات اکتوبر کے بعد سے پوری دنیا جان چکی ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت ایک طاقتور عنصر کے طور پر موجود ہے۔ مقبوضہ فلسطین کو چونکہ ماضی کے مذاکراتی معاہدوں میں تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جس میں ایک حصہ غزہ ہے اور دوسرا حصہ مغربی کنارہ یعنی غرب اردن کا علاقہ کہلاتا ہے جبکہ تیسرے علاقہ کا نام مشرقی یروشلم یا القدس شریف ہے ۔
غزہ میں سنہ2006میں پہلی مرتبہ حماس کی حکومت قائم ہوئی تھی جس کو امریکہ سمیت اتحادیوں نے تسلیم نہیں کیا تھا لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ غزہ کے لوگ حماس اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں۔ نہ صرف غزہ بلکہ پورے مقبوضہ فلسطین کے لوگوں نے پہلے بھی مزاکراتی عمل میں ہونے والی تقسیم کو مسترد کیا تھا اور دو ریاستی حل کی باتوں کو بھی مسترد کیا تھا ۔ یہ بات خود اس بات کی دلیل ہے کہ پورے فلسطین کے لوگ پورے فلسطین کی آزادی چاہتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔یعنی فلسطینی عوام کا اعتقاد ہے کہ فلسطین نہر سے بحر تک۔
غزہ میں سنہ 2005کے بعد سے مسلسل مسلح مزاحمت نے استحکام حاصل کیا ہے ۔ اس عنوان سے راقم پہلے ہی کئی تحریروں میں غزہ کے مسلح ہونے کے عمل کو بیان کر چکا ہے کہ جس میں ایران، حزب اللہ سمیت شام اور لبنان کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ حالانکہ ان ممالک کے ساتھ غزہ کی کوئی زمینی سرحد بھی موجود نہیں ہے لیکن آج کل یہ بات آشکار ہو چکی ہے کہ زیر زمین سرنگوں کے نظام سے ہی غزہ کو مسلح کیا گیا تھا کہ جس کے باعث آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل تمام تر مغربی حکومتوں کی پشت پناہی کے باوجود حما س جیسے ایک چھوٹے گروہ کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں مغربی کنارے کی، جی ہاں مقبوضہ فلسطین کا مغربی کنارے کا علاقہ جس میں مشہور ترین کیمپ جنین، برقین، طولکرم اور دیگر ہیں۔یہ وہ علاقے ہیں کہ جہاں غاصب صیہونی فوجیوں نے سخت قسم کا گھیرا ئو لگا رکھا ہے تاکہ یہاں کہ عوام کو غزہ کے فلسطینیوں سے دور بھی رکھا جائے اور پھر غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے کوئی اقدام کرنے سے بھی روکا جائے۔
آج سے دو سال پہلے ہی کی بات ہے کہ ایک جنین کیمپ کہ جہاں غاصب صیہونی فوجیوں کی مکمل نگرانی موجود ہے ، اسی کیمپ سے ایک نوجوان ابراھیم نابلسی کہ جس کا تعلق نابلس شہر سے تھا نمودار ہوتا ہے اور ایک ایسی بے مثال مسلح جدوجہد کاآغاز کرتا ہے کہ جس کے باعث غاصب صیہونی حکومت کی رات کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ ابراھیم نابلسی کئی دن تک نوجوانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھ غاصب صیہونی فوج کا مقابلہ کرتا ہے اور کئی ایک صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ابراھیم کی بہادری اور شجاعت پر اسے فلسطین میں آج بھی شیر کا لقب دیا گیا ہے اور نوجوان ابراھیم نابلسی کو شیر کہہ کر پکارتے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اس نوجوان سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس کی تصاویر آویزاں کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ تمام تر ظلم اور جبر کے باوجود بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل فلسطینی نوجوانوں کو ان کا حق آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک پا رہی ۔
سات اکتوبر کے بعد سے گیارہ ماہ کے عرصہ میں غاصب صیہونی فوج نے غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا ہے، قتل عام کرتے ہوئے نسل کشی کی ہے اور چالیس ہزار سے زیادہ معصوم انسانوں کو قتل کیا ہے۔ لاکھوں زخمی ہیں، دسیوں ہزار لا پتہ اور ملبہ تلے دبے ہوئے ہیں، بہت بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ لیکن آج غزہ کے بعد فلسطینی مزاحمت مغربی کنارے میں ابھر رہی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے ایک مرتبہ پھر مقبوضہ فلسطین کے مغربی کناروں میں مزاحمتی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اب یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ مغربی کنارے کے جوان شہادت پسند کاروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں کو واصل جہنم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ آئے روز ایک جوان سامنے آتا ہے جو صیہونی غاصب فوجیوں سے ٹکراتا ہے اور اس عزم کے ساتھ کہ اسے شہادت حاصل کرنی ہے۔ تمام تر ٹئکنالوجی اور اسلحہ کی طاقت کے باوجود اسرائیلی غاصب فوج مغربی کنارےکے فلسطینیوں کی مزاحمت کو روکنے میں تاحال ناکام ہے۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر جو اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت چاہتی تھی کہ مغربی کنارے کو ہمیشہ فلسطینیوں سے کاٹ کر رکھے اور غزہ کے اثرات یہاں مرتب نہ ہوں لیکن اب نتیجہ بالکل برعکس سامنے آ رہاہے۔ حال ہی میں جنین اور طولکرم کے علاقو ں میں فلسطینی نوجوانوں کو کاندھوں پر رکھ کر شاٹ رینج میزائل فائر کرتےدیکھا گیا ہے۔ جس علاقہ میں ایک پستول کا ہونا محال تھا آج وہاں کلاشنکوف اور جدید بندوقوں سمیت شاٹ رینج میزائل فائر کرنے والی مشینیں پہنچ چکی ہیں۔یہ ساری وہ باتیں ہیںکہ جس کے باعث غاصب صیہونی حکومت کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کی ایجنسیوں کے عہدیداروں کے درمیان ایک سوال بہت اہم ہے جس کا جواب تلاش کیاجا رہاہے اور وہ سوال یہ ہے کہ آخر مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے میں فلسطینی نوجوانوں کو کون منظم کر رہا ہے ؟ آخر ان فلسطینی نوجوانوں تک یہ سارا اسلحہ کون پہنچا رہا ہے ؟ یہ سوال واقعی تمام دوستوں اور دشمنوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ایک ایسے علاقہ میںجہاں نہ تو کوئی زمینی سرحد کسی ملک کے ساتھ ملتی ہے اور نہ ہی سمندری راستوں سے ایسا کوئی راستہ موجو دہے کہ اسلحہ کی سپلائی پہنچائی جا سکے تو پھر آخر یہ اسلحہ مغربی کنارے میں کون اور کیسے پہنچا رہاہے۔ صیہونی فوجیوں کی موت سے زیادہ صدمہ اس وقت غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو اس بات پر ہے کہ آخر تمام تر شکنجوں کے باوجود بھی ناکامی ان کو منہ چڑا رہی ہے۔
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اب مغربی کنارے کا فلسطین بھی مسلح مزاحمت میں شریک ہو چکا ہے اگر چہ کاروائیوں کے تسلسل میں کچھ وقت درکار ہے لیکن جس قدر مزاحمت جاری ہے یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔جہاں تک یہاں اسلحہ پہنچانے اور تربیت دینے کا سوال ہے تو اس عنوان سے میرا تجزیاتی جواب یہی ہے کہ جس طرح ایران اور حزب اللہ نے غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی تحریکوں حماس، جہاد اسلامی و دیگر کو طاقتور کیا ہے ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ایران اور حزب اللہ کے کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اگر یہ بات سچ ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اسرائیل ڈوب رہا ہے۔