مقبوضہ بیت المقدس – فلسطین فائونڈیشن پاکستان ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023ء سے غزہ میں فلسطینی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو من مانی طور پر حراست میں لے رکھا ہے، اور انہیں جیلوں میں قید کر کے ان کے ساتھ تشدد اور ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
تنظیم نے سوموار کو جاری ایک رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں پر بار بار اسرائیلی حملوں کے تناظر میں طبی عملے کی حراست محصور پٹی میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی تباہ کن خرابی کا باعث ہے۔
رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی قید سے رہائی پانے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کے بیانات کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں ناروا سلوک کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا گیا، مار پیٹ کی گئی، جبری دباؤ کے ذریعے اعتراف کرانے کی کوشش کی گئی، پابندیاں لگائی گئیں، طویل عرصے تک آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، طبی نگہداشت سے محروم رکھا گیا، تشدد کیا گیا، عصمت دری اور جنسی حملے کیے گئے، اور قیدیوں کے بین الاقوامی اور مسلمہ قوانین کی کھلے عام پامالی کی گئی۔
تنظیم میں مشرق وسطیٰ کی قائم مقام ڈائریکٹر بلقیس جراح نے کہا کہ “اسرائیلی حکومت فلسطینی طبی عملے کے ساتھ بدسلوکی جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔ طبی عملے پر مظالم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے”۔
انہوں نے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کے ساتھ ہونے والے تشدد اور دیگر اقسام کے ناروا سلوک کی جامع تحقیقات کرنے اور مجرموں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت سمیت دیگر عالمی عدالتی فورمز کے ذریعے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ طبی عملے کی شہادتیں آزاد رپورٹوں سے مطابقت رکھتی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر، اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA)، اسرائیلی میڈیا اور انسانی حقوق کی رپورٹس شامل ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ تمام رپورٹس اور اکاؤنٹس اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قیدیوں کو مار پیٹ، جنسی تشدد، جبری اعتراف، بجلی کے جھٹکے اور دیگر قسم کے تشدد اور خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طویل من مانی حراست اور طبی عملے کے ساتھ ناروا سلوک نے غزہ میں صحت کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تنظیم نے پیرامیڈیکس میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “اسے سدی تیمان نامی حراستی مرکز میں ہتھکڑیوں اور زنجیروں کے ساتھ لٹکا دیا گیا تھا۔ اس پر تشدد کے نتیجے میں اس کی پسلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور زخمی ہونے کے باوجود اسے طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ بہت ذلت آمیز تھا۔ یہ ناقابل یقین تھا۔ میں ایک پیرامیڈک کے طور پر لوگوں کی مدد کر رہا تھا اور میں نے کبھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی کہ مجھ سے ایسا بہیمانہ برتاؤ ہوگا”۔
قید میں رہنے والے کچھ طبی کارکنوں نے کہا کہ انہیں “جنسی تشدد اور حملہ آور کتوں کے استعمال کی دھمکیاں دی گئیں”۔
بیت لاہیا کے انڈونیشیا کے ہسپتال کے ڈاکٹر اسامہ طشطاش، جنہیں دسمبر کے اوائل میں ہسپتال کے ساتھ واقع اپنے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا، نے کہا کہ “ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہم اپنے کپڑے گلی میں اتار دیں۔ اس کے بعد ہمیں ڈیڑھ گھنٹے تک اپنے گھٹنوں کے بل پڑے رہنے پر مجبور کیا گیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “اس علاقے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہمیں اور دیگر قیدیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے قریبی گھروں پر دستی بم پھینک کر انہیں آگ لگا دی تھی، توان بموں کے ٹکڑے ہمیں بھی لگے تھے۔”
تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں 92,000 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور وہاں کام کرنے والے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے 1500 سے بھی کم بستر ہیں، جبکہ قابض حکام نے بہت کم تعداد کو غزہ سے باہر علاج کے لیے جانے کی اجازت دی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے وضاحت کی کہ قابض حکام نے کئی دہائیوں سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف تشدد اور دیگر خلاف ورزیوں کے لیے قابل اعتماد احتساب فراہم نہیں کیا۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2019ء اور 2022ء کے درمیان 1,830 شکایات آئی پی ایس افسران کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے درج کی گئیں، جن میں سے کسی پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔