غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں واقع ایک تاریخی اسلامی یادگارمسجد کو تباہ کن بمباری کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ تاریخی مسجد عثمان بن عفان غزہ کے علاقے الشجاعیہ میں تھی۔
کل بدھ کو قابض فوج کے جنگی طیاروں نے “الشجاعیہ محلے” کے مرکز میں واقع “بن عثمان” مسجد پر کئی بڑے میزائل داغے اور اسے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔
ماہرین کے مطابق یہ مسجد “عظیم العمری مسجد” کے بعد غزہ کی پٹی کی دوسری سب سے بڑی آثار قدیمہ کی مسجد ہے، جو شہر کے وسط میں “الدرج محلے” میں واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی مسجد ہے۔
“الشجاعیہ محلے” کے مکین اس مسجد کو اس کے وسیع رقبے اور اس کے مرکزی مقام، محلے کا مرکزی بازار ہونے کی وجہ سے “عظیم مسجد” کہتے ہیں۔ یہ چھ سو سالہ پرانی مسجد ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ “ابن عثمان” مسجد کو غزہ کی پٹی پر پچھلی جنگوں کے دوران حملوں اور مسماری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 8 دسمبر 1987 کو شروع ہونے والے انتفاضہ الحجارہ کے دوران اسے قابض افواج کے ساتھ تصادم کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
مملوک طرز کی مسجد کا رقبہ 2 ہزار مربع میٹر ہے جس میں سے 400 مربع میٹر اس کے مرکزی صحن کا رقبہ ہے اور اس کے دو دروازے ہیں جن سے ایک شجاعیہ مارکیٹ کی طرف کھلتا ہے۔
قابض افواج نے تقریباً ایک ہفتہ قبل “شجاعیہ محلے” پر زبردست حملہ کیا تھا، جو کہ 9 ماہ قبل غزہ پر جنگ کے آغاز کے بعد سے تیسرا حملہ ہے، جس کی وجہ سے محلے کی ڈیڑھ لاکھ آبادی بے گھر ہوئی۔
خیال رہے کہ گذشتہ 7 اکتوبر سے “اسرائیلی” قابض افواج غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دسیوں ہزار معصوم شہری شہید، زخمی اور لاپتہ ہونے کے علاوہ 20 لاکھ افراد بے گھرہوچکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کا 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور غزہ کی سخت ناکہ بندی اور مسلسل جنگ کے نتیجے میں گنجان آباد علاقہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔
ادویات، پانی اور خوراک کی قلت کے باعث آئے روز بچوں اور دیگرشہریوں کی اموات کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوسری جانب غاصب صہیونی دشمن ریاست نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنا دی ہیں اور وہ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم اور مسلسل نسل کشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے۔