تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ نو ماہ میں پچاس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ پورے غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ نسل کشی میں اس قدر شدت ہے کہ انسانیت کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ کئی ایک مزاکرات کے دور گزر چکے ہیں جو امریکی و اسرائیلی ہٹ دھرمیوں کی باعث ناکام ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی قرار داد منظور ہونے کے باوجود غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینوں پر ظلم کا سلسلہ بند کرنے پر رضا مند نہیں ہے۔ امریکی آشیرباد کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربوں ڈالر کا اسلحہ مسلسل غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو پہنچایا جا رہاہے تا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہے۔
غزہ جنگ بندی کے معاہدے میں حماس اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں بشمول جہاد اسلامی اور پاپولر فرنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر یہ نقاط اٹھائے گئے ہیں کہ غز ہ میں مستقل جنگ بندی کی جائے اور فلسطینی قیدیوں کو صیہونی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے۔ غزہ کی از سر نو تعمیر اور غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی شرائط بھی اس معاہدے کا حصہ ہیں۔
امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت مسلسل ان شرائط کو مسترد کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ غزہ سے نکال دئیے جانے والے فلسطینیوں کو واپس غزہ نہ آنے دیا جائے یعنی جس طرح سنہ1948ء میں یوم نکبہ پر پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے جبری جلا وطن کیا گیا تھا ایک مرتبہ پھر اتنی ہی بڑی تعداد کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
امریکی حکومت جو ایک طرف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد گار ہے وہاں دوسری جانب دنیا کے سامنے ڈھونگ رچانے کے لئے امریکی صدر بائیڈن نے جنگ بندی کا معاہدہ پیش کیا ہے۔ اس معاہدے میں مصر اور قطر کی حکومتیں امریکی معاہدے کی معاون اور مدد گار ہیں۔
حال ہی میں غزہ میں موجود حماس کی قیادت یحیٰ سنوار جن کو سات اکتوبر کے طوفان اقصیٰ آپریشن کا ایک ماسٹر مائنڈ بھی قرار دیا جاتا ہے انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے عرب مزاکرات کاروں اور حماس کی سیاسی قیادت کو مختصر پیغام بھیجا ہے۔ ایک عربی ذرائع کے مطابق غزہ میں موجود حماس کی قیادت یحیٰ سنوار نے یہ پیغام مصر اور قطر سمیت عرب حکمرانوں کے نام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی ایسے معاہدے کو تسلیم نہ کیا جائے جس کی بنیاد امریکی حکومت نے قائم کی ہو۔ انہوں نے عرب مزاکرات کاروں کو واضح کر دیا ہے کہ حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہ جو اس وقت فلسطین کے اندر رہتے ہوئے فلسطین اور پوری مسلم امہ کا دفاع کر رہے ہیں سب کا یہی پیغام ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی سے کم کسی معاہدے پر دستخط نہ کئے جائیں۔ قیدیوں کے بدلے میں قیدیوں کا تبادلہ یقینی بنایا جائے۔
یحیٰ سنوار کے اس پیغام پر سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ فلسطین کے اندر موجود تمام ہی مزاحمتی گروہ بشمول حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ آف دی فلسطین اور دیگر سب کے سب اس نقطہ پر متفق ہو چکے ہیں کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جائے جبکہ دوسری جانب امریکی حکومت اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قائل نہیں ہیں۔ امریکی حکومت کے ارادوں میں واضح طور پر بد نیتی موجو دہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل بھی فلسطین پر مکمل غاصبانہ تسلط کو یقینی بنانے کے لئے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
انہی حالات کے دوران ہی امریکی جنگ بندی کے فارمولہ پر عملدرآمد کے لئے امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے چیف ولیم برنز نے گزشتہ دنوں دوحہ میں مصر اور قطر کےء اعلیٰ سطحی عہدیداروں سے ملاقات کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ حما س کی سیاسی قیات کو امریکی صدر کے جنگ بندی کے فارمولے پر دستخط کرنے کے لئے رضا مند کیا جائے۔
امریکن سی آئی اے کے چیف کے اس دورے کے بعد مصر میں قطر اور مصری حکام نے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے مزاکرات کاروں کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر نے شرکت کی تھی اور اس اجلاس میں مصری اور قطری عہدیداروں نے امریکن سی آئی اے چیف ولیم برنز کا پیغام پہنچایا تھا جس پر فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کے نمائندوں نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ مستقل جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ کسی بھی معاہدے کا بنیادی جز ہیں۔
اس تمام پیش رفت کے دوران ہی غزہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو مطلوم حماس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر اور رہنما یحیٰ سنوار نے ان تمام مزاکرات کاروں کو ایک مختصر پیغام ارسال کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت مسائل کی جڑ ہے۔ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے تاہم عرب مزاکرات کاروں کو چاہئیے کہ کسی بھی معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو فراموش نہ کریں۔
تمام تر صورتحال کے بعد عرب ذرائع ابلاغ پر یہ سوال بھی گردش کر رہاہے کہ کیا حما س کی سیاسی قیادت یعنی اسماعیل ہانیہ کہ جو قطر میں مقیم ہیں کیا وہ قطری حکومت کا دباؤ تسلیم کریں گے؟ کیونکہ پہلے بھی ایسی خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ جس میں قطری حکام حماس کی اعلیٰ قیادت یعنی اسماعیل ہانیہ کو معاہدہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قطر سے نکالنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حما س کی قطر میں موجود قیادت کو گرفتار کر کے امریکیوں کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔
بہر حال اسماعیل ہانیہ پر جہاں امریکی و اسرائیلی دباؤ ہے وہاں ساتھ مسلمان حکومتوں یعنی مصر اور قطر کا بھی دباؤ موجود ہے کیونکہ یہ دونوں ہی مزاکرات میں شریک ہیں۔البتہ اب تک اسماعیل ہانیہ نے بھی غزہ کے مجاہدین کے موقف کی ترجمانی کی ہے اور واضح الفاظ میں بیان دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے علاوہ کوئی بھی دوسری حل قابل قبول نہیں ہے