نیو یارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) غزہ میں جاری نسل کشی کی صہیونی جنگ میں دشمن ریاست کی شکست فاش نوشتہ دیواربن چکی ہے۔ پوری دنیا بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے میڈیا ادارے بھی چیخ چیخ کر غزہ میں اسرائیلی شکست اور اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی فتح اور طاقت کا اعتراف کررہے ہیں۔
امریکی میگزین فارن افیئرز نے غزہ میں نو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “غزہ کی پٹی میں نو ماہ کی اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے بعد بھی حماس کو شکست نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل حماس کو شکست دینے کے قریب ہے پہنچا ہے”۔
امریکی جریدے نے مزید کہا کہ “اسرائیل” نے تقریباً 40,000 فوجیوں کے ساتھ غزہ کی پٹی پر حملہ کیا۔ 80 فیصد آبادی کو زبردستی بے گھر کر دیا 37,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا۔ پٹی پر کم از کم 70,000 ٹن بم گرائے۔ اس کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کردیا۔ پانی، خوراک اور بجلی تک رسائی بند کی۔ پوری آبادی کو فاقہ کشی کے دہانے پر چھوڑ دیا۔ اگرچہ بہت سے مبصرین نے اسرائیل کے رویے کی غیر اخلاقی باتوں کو اجاگر کیا، اسرائیلی رہنما مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ حماس کو شکست دینے اور اس کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے قریب ہیں، لیکن اب جو بات واضح ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ “حماس کی طاقت دراصل بڑھ رہی ہے”۔
میگزین کے مطابق “اسرائیل” کی حکمت عملی میں مرکزی خامی حکمت عملی کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ یہ تباہ کن ناکامی حماس کی طاقت کے ذرائع کے بارے میں غلط فہمی تھی جس نے “اسرائیل” کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس نے غزہ پر جو قتل عام اور تباہی مسلط کی، اس نے مزاحمت کی طاقت میں اضافہ ہی کیا۔
ایک امریکی اہلکار نے CBS کوبتایا کہ اسرائیل کا غزہ میں جنگ کے بعد کے دن کے لیے کسی بھی منصوبے تک نہ پہنچنا “حماس کو تباہ کرنے” کے ہدف میں ناکامی کا ثبوت ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی قابض فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگاری نے کہا تھا کہ حماس کو تباہ کرنے کی بات ’’اسرائیلیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے مترادف ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر فلسطینی حکومت حماس کا متبادل نہیں ڈھونڈتی تو حماس برقرار رہے گی‘‘۔
اسرائیلی حملے کے نتیجے میں امریکی میگزین کا کہنا ہے کہ حماس کی طاقت درحقیقت بڑھ رہی ہے، جس طرح بڑے پیمانے پر “تلاش اور تباہی” کے دوران “ویت کاننگ” (نیشنل فرنٹ فار دی لبریشن آف ساؤتھ ویتنام) کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کا اشارہ ان کارروائیوں کی طرف تھا جنہوں نے 1966ء اور 1967ء میں جنوبی ویتنام کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
میگزین کے مطابق حماس غزہ میں ایک ضدی اور مہلک “گوریلا” فورس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کے ساتھ شمالی علاقوں میں زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں جن پر اسرائیل نے صرف چند ماہ قبل قبضہ کرنےکا دعویٰ کیا تھا۔
شاید جو لوگ غزہ میں جنگ کے مناظر کی پیروی کرتے ہیں وہ قابض افواج کے خلاف القسام بریگیڈز کی طرف سے اپنی کارروائیوں کے نشر کیے گئے ویڈیو کلپس دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ القسام مجاھدین غزہ میں گھسنے والی قابض فوج پر کئی محاذوں سے حملے کرتے ہیں۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل حماس کو کچلنے کے اپنے دعوے میں ناکام رہا ہے۔
اس موقع پر برطانوی اکانومسٹ میگزین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی پہلی ناکامی حکمت عملی ہے، کیونکہ یہ الزام بنیادی طور پر اسرائیلی سیاست دانوں پر آتا ہے، خاص طور پر وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، جنہوں نے غزہ پر کنٹرول کرنے والی کسی بھی متبادل فلسطینی قوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری ناکامی جرنیلوں کی ہے جو حماس کی مزاحمتی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا سکے۔
فوج کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ یہ انہوں نے اندازہ نہیں لگایا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے عام شہریوں کے قتل عام سے اسرائیل کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
اس کی دو توجیہات ہیں۔ پہلی یہ کہ آپریشنل ہدایات جو شہریوں کے مارے جانے کا امکان زیادہ ہونے پر بھی حملوں کی اجازت دیتی ہیں۔ دوسرا اسرائیلی فوج کے اندر ان قوانین کی پابندی کرنے میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔
دی اکانومسٹ نے غزہ میں خدمات انجام دینے والے ایک ریزرو افسر کے حوالے سے کہا کہ “تقریباً کوئی بھی بٹالین کمانڈر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ پٹی میں چلنے والی ہر چیز دہشت گرد ہے یا عمارتوں کو تباہ کر دینا چاہیے کیونکہ وہ انہیں حماس استعمال کرسکتی ہے”۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔