غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) سرکاری میڈیا آفس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 3,500 سے زائد بچے بھوک سے مرنے، خوراک کی کمی، غذائی سپلیمنٹس کی کمی اور امداد کی روک تھام کی پالیسیوں کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
دفتر نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں پانچ سال سے کم عمر کے 3,500 سے زیادہ بچے بتدریج موت کے خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ “اسرائیلی” قابض فوج بچوں کی بھوک سے مارنے کی مجرمانہ پالیسیوں، دودھ اور خوراک کی کمی، غذائی اجزاء کی کمی اور انہیں حفاظتی ٹیکوں سے محروم کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
بیان میں عالمی برادری کی غزہ میں امداد کی سپلائی میں رکاوٹوں پر اختیار کردہ مجرمانہ خاموشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی مجرمانہ خاموشی سے غزہ میں قحط کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔
بیان کے مطابق خوراک کی شدید قلت سے دوچار یہ بچے اعلی درجے کی غذائیت کا شکار ہیں جس نے ان کے جسم کی ساخت کو متاثر کیا ہے۔ خوراک کی قلت بچوں متعدی بیماریوں کے لگنے کے خطرے سے دوچار کر دیتی ہے جو ان کی جانیں لے لیتی ہیں۔ ان کی نشوونما میں تاخیرکا باعث بنتی اور ان کی زندگی کو خطرات سے دوچار کردیتی ہے۔
سرکاری میڈیا نے اس بات پر زور دیا کہ ان بچوں کو خوراک، صحت کی دیکھ بھال، باقاعدہ طبی فالو اپ جیسی بنیادی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔ ان کی حالتیں بگڑتی جا رہی ہیں اور شروع میں ان کے لیے مختص کی گئی ویکسین اور دوائیوں کی خوراک سے محروم ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ کی پٹی میں بچوں کو ان تمام بحرانوں کے لیے ایک بنیادی اور فوری ردعمل کی ضرورت ہے جن کا انہیں “اسرائیلی” قابض ریاست سے منظم طریقے سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کو خاص طور پر نسل کشی کی جنگ کے دوران جس ہولناکی کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد انہیں جدید نفسیاتی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ 15,438 بچے شہید ہوچکے،ان میں سے 17,000 اب اپنے والدین یا دونوں کے بغیر رہتے ہیں۔