اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ موجودہ نازک حالات کا تقاضا ہے کہ تمام عرب ممالک قومی سطح پرغزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلہ کریں۔ انہوں نے یورپ سے آنے والے امدادی قافلے” آزادی” کو عرب ممالک کے لیے ایک بہترین مثال قرار دیا۔ اتوار کے روز شام کے دارالحکومت دمشق میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ ” بحری بیڑے کا امدادی سامان لے کرغزہ کی طرف عازم سفر ہونا اس میں شریک افراد کے غزہ کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کے مضبوط عزم اور ارادے کا اظہار ہے۔ یورپ یا روس سے قبل عرب ممالک کو اجتماعی قومی سطح پر غزہ کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کے لیے جرات مندانہ فیصلہ کریں۔” انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کا خیال ہے کہ معاشی ناکہ بندی کے ذریعے فلسطینی عوام کے عزم کو شکست دی جا سکتی ہے وہ “جاہلوں کی دنیا” میں رہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے روسی صدر ” ڈیمٹری میڈویو ڈیوف” اور شامی صدر بشارلاسد کے ساتھ دمشق میں ہونے والی ملاقات میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی پرپوری تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر سے بات چیت کے دوران میں نے پر واضح کیا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو اب چار سال مکمل ہو رہے ہیں۔ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اور شہر کی تعمیر نو جہاں پوری عالمی برداری کی اخلاقی ذمہ داری ہے وہی روس کی بھی ذمہ داری ہے کیونکہ روس عالمی برادری کا اہم جز ہے”۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ حماس کسی کے خلاف جنگ کی تیاری نہیں کر رہی تاہم اپنے دفاع فلسطینی عوام کا حق ہے اور اس حق کے حصول کے لیے مزاحمت کی استعداد کار بڑھانے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غزہ کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے تاہم اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں۔ کیونکہ اسرائیل کی جانب سے اب بھی غزہ پر کسی بھی وقت جارحیت کے خطرات موجود ہیں اور صہیونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے خود کو ہمہ وقت تیار رکھنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملے کا آپشن آج بھی موجود ہے تاہم اس کا فیصلہ صہیونی حکومت نے خود نہیں بلکہ امریکا کی طرف سے “گرین سگنل” ملنے کے بعد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور یہ کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں۔ خالد مشعل نے کہا کہ “اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو اردن کو فلسطینیوں کے متبادل وطن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں میرا اردنی حکام اور قانون ساز اداروں سے مطالبہ ہے کہ وہ اسرائیل کے کسی ایسے فیصلے کو ناکام ثابت کرنے کے لیے اپنے ملک میں خود ہی فضا سازگار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گی جسے مکمل طور قیادت کی بالادستی اور آزادی حاصل نہیں ہوگی۔ فلسطین کا کوئی لیڈر سابق صدر یاسرعرفات مرحوم کی طرف سے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں ان کی جانب سے مسترد کردہ شرائط کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصری ثالثی کے تحت ہونے والی مفاہمتی کوششوں کے بارے میں ایک سوال پر خالد مشعل نے کہا کہ “بعض عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کی طر ف سے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذکرات کے بعد مفاہمت کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، اسرائیل سے مذاکرات اور فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت میں سے دونوں ایک ہی ہو سکتا ہے یا اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہوں گے یا حماس کے ساتھ مفاہمت ہو گی۔ میں نے خود یورپی ممالک کے راہنماؤں کو کہتے سنا ہے کہ “جب تک حماس چار رکنی بین الاقوامی کمیٹی کی شرائط تسلیم نہیں کرے گی مفاہمت کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔” انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کا معاملہ مذاکرات کی میز پر آیا ہی نہیں۔ اسے امریکی اشارے پر”ویٹو” کر دیا گیا ہے۔ امریکی ہدایت کے مطابق اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے نزدیک مذاکرات کی میز پر صرف اسرائیل سے بات چیت کا موضوع ہی رہ گیا ہے، فلسطینی مفاہمت کا معاملہ پس منظرمیں چلا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “اسلحے کے بغیر جنگ میں اترنا جس طرح خود کشی کے مترادف ہے، اسی طرح طاقت کے بغیر مذاکرات بے وقوفی ہے۔”