فلسطینی صدر جن کی آئینی مدت صدارت رواں سال جنوری سے ختم ہو چکی ہے نے اسرائیل کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی معاہدے میں اراضی کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے یہ اتفاق ایک ایسے وقت میں کیا ہے جبکہ حال ہی میں امریکی اخبار”وال سٹریٹ جنرل” نے انکشاف کیا ہے کہ محمود عباس نے صدر باراک اوباما کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ مسٹر جارج میچل سے ملاقات میں بیت المقدس اور فلسطینی ریاست کی حدود کے بارے میں اسرائیل کے سامنے “غیر متوقع” اور “غیرمعمولی” لچک کی پیشکش کی ہے۔
عالمی خبررساں ایجنسی “روئٹیرز” نے محمود عباس کا ایک تازہ بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ” اسرائیل کے ساتھ زمین کے تبادلے کے سلسلے میں جو معاہد پہلے طے پایا تھا، اب وہ اس میں زمین کی مقدار دوگنا کرنے پر تیار ہیں۔
ماضی میں ہم زمین کی کسی خاص مقدار پر اتفاق نہیں کر سکے تاہم ہمارے درمیان اس حد تک اتفاق ہوگیا تھا ہم زمین کا تبادلہ کریں گے”۔رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کاروں اور محمود عباس نے امریکی مندوب کے لیے “چونکا دینے والی پسپائی کی پیشکش” کی ہے، امریکا اور اسرائیل کے گمان میں بھی نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اس نوعیت کی پسپائی اختیار کی جا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ایہود اولمرٹ کے ساتھ دو سال قبل ہونے والی بات چیت میں مغربی کنارے کی ایک اعشاریہ نو فیصد زمین اسرائیل کو دینے اور اس کے مقابلے میں اسرائیلی زیر تسلط علاقوں سے اتنا ہی رقبہ فلسطینی ریاست میں شامل کرنے کی تجویز بھی دی۔
محمود عباس نے مغربی کنارے کے 1.3 فیصد رقبے میں علاقے کی بڑی یہودی کالونی کی تعمیر پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب محمود عباس نے کہا کہ ان کی حکومت اسرائیل کے خلاف کسی پروپیگنڈے میں استعمال نہیں ہو گی، انہوں نے کہا کہ “ہم اسرائیل کے ساتھ امن بقائے باہمی کے اصولے تحت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے” امن و استحکام” کے حامی ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مطمئن رہیں فلسطینی اتھارٹی اس کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔