تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر سے تاحال ایک سو گیارہ دن ہو چکے ہیں۔ امریکہ مسلسل غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی پشت پناہی کرتا آیا ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی کے نتیجہ میں غاصب صیہونی حکومت نے غزہ میں پچیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل کیا ہے۔ جن میں سترہ ہزار معصوم بچے اور خواتین ہیں۔ ہزاروں مکانات کو تباہ و مسما ر کر دیا ہے۔ غزہ کی پچانوے فیصد آبادی کھلے آسمان تلے بے یار ومدد گار ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی عوام کی منظم نسل کشی کی ہے۔ امریکہ اس نسل کشی کی نہ صرف حمایت کرتا آیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس نسل کشی کو انجام دینے کے لئے اسرائیل کو بھاری مقدار میں گولہ بارود اور اسلحہ بھی فراہم کیا ہے۔ امریکہ کی غاصب صیہونی حکومت کے لئے اس جنگی امداد کے معاملہ پر پینٹا گون پہلے ہی تقسیم کا شکار ہو چکا تھا اور کئی ایک اہم عہدیداروں مستعفی ہو چکے ہیں۔ مزید خبریں آ رہی ہیں کہ عنقریب امریکی عہدیداروں اور سینیٹر کی بڑی تعداد استعفیٰ دینے والی ہے۔ دوسری جانب امریکی عوام ہیں کہ جنہوں نے طوفان اقصیٰ کو امریکہ کے شہروں میں اٹھا رکھا ہے۔ مسلسل احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی جاری ہے۔ امریکی عوام نے ٹیکس نہ دینے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔کیونکہ امریکی عوام کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر رہی ہے اور اسرائیل فلسطین کے عوام کی نسل کشی کر رہا ہے اور معصوم بچوں کا قتل عام کیا جا رہاہے۔
یعنی تمام تر صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل بڑی کامیابی سے امریکی حکومت کو اس جنگ میں گھسیٹ رہی ہے۔ اپنے تمام تر گناہوں میں امریکی حکومت کو برابر کا شریک کر رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ شاید غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے سامنے بے بس ہے یا پھر جان بوجھ کر فلسطینی عوام کے خون سے ہاتھ رنگین کر رہی ہے۔
امریکہ نے پہلے دن سے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ پر جاری جارحیت کے عنوان سے اعلان کر رکھا ہے کہ امریکی حکومت حماس کو ختم کرنا چاہتی ہے تا کہ اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی کام کے لئے دو ہفتے قبل ہی امریکی سیکرٹری سٹیٹ بلنکن نے سات دنوں میں عرب دنیا میں دس سربراہان مملکت بشمول ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، مصر، اردن، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، غاصب صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقاتیں کی تھیں۔ ان تمام ملاقاتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ حماس کو ختم کرنا ہے اور غزہ کو خالی کرنا ہے۔ اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ بہر حال موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت نے رفتہ رفتہ اپنی شکست کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔
حال ہی میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حماس برقرار رہے گی۔ حالانکہ کچھ دن پہلے تک امریکہ اور اسرائیل مسلسل حما س کو ختم کرنے اور جڑ سے اکھاڑنے کی باتیں کر رہے تھے۔ مسلسل تین ماہ میں امریکہ اور اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو اس لئے قتل کیا تا کہ فلسطین سے مزاحمت یعنی حماس کو ختم کر دیں لیکن اب جان کربی کے اس شکست خوردہ بیان کے بعد ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ حما س کو ختم کرنا نا ممکن ہے۔لہذا امریکی عہدیدار کے اس بیان سے امریکہ اور اسرائیل کی راہیں جدا ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو اب یقین ہو چکا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بری طرح شکست کھا چکا ہے۔ مزید اسرائیل کی حمایت سے امریکہ کو مسلسل نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ امریکی عوام جو مسلسل مختلف شہروں میں امریکی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور امریکی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے۔ جان کربی کے اس بیان کو اسرائیل کی حمایت سے دستبرداری کا پہلا قدم تصور کیا جا رہا ہے لیکن امریکی سیاست کی تاریخ اس قدر سیاہ اور دھوکوں پر مبنی ہے کہ کسی بھی بات پر حتمی یقین نہیں کیا جا سکتا ہے۔
چند سیاسی تجزیہ نگاروں کایہ بھی ماننا ہے کہ جان کربی کے اس بیان کو غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کے جاری رہنے اور مزید قتل وغارت کرنے کے لئے ایک نئی کلین چٹ بھی ہو سکتی ہے جو امریکی حکومت کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کے ڈوبتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو کے لئے ہو۔
دوسری طرف امریکہ محکمہ خارجہ نے غاصب صیہونی حکومت کے دو وزیروں کی جانب سے غزہ کی آبادی اور عوام کے بارے میں دئیے گئے اشتعال انگیز بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ دونوں وزیروں کے بیانات غیر ذمہ دارانہ تھے۔
ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ حقیقت میں امریکہ کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ غزہ جنگ توسیع پسندی کی طرف جا رہی ہے اور امریکہ مسلسل اس جنگ میں چاہتے اور نہ چاہتے ہر دو حالتوں میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین سمیت پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کی بڑی کامیابی ہے کہ امریکی حکومت نے فلسطین کی مزاحمت کے عنوان سے جو بیان دی اہے خود امریکہ اور اسرائیل کی بڑی شکست کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی کامیابی بھی ہے