تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
آج ایک ایسی شخصیت کی چوتھی برسی ہے جس کو دنیا نے اس کی شہادت کے بعد پہچانا کہ آخر یہ شہید کون ہیں؟ جی ہاں شہید قاسم سلیمانی کہ جن کہ تمام عمر مظلوموں کی حمایت اور ظالم و جابر نظاموں سے نبرد آزمائی میں گزر گئی۔یہاں تک کہ اپنی مراد شہادت کو پا لیا۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں ان کی مضبوبیت کا اندازہ اس وقت ہوا کہ جب ان کے تشیع جنازہ کو عراق سے ایران لایاگیا اور کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نہ صرف عراق اور ایران بلکہ دنیا کے گوش و کنار میں ہر وہ فرد جس نے قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر سنی وہ اپنے جذبات اور آنسو پر قابو نہ رکھ پایا۔
شہید سلیمانی ایک ایسی ہستی کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ فلسطین کاز کو اپنی زندگی کا اولین مقصد قرار دیا۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے تمام کاموں کا محور اور مرکز القدس ہونا چاہئیے۔ سنہ2005کے بعد کہ جب غزہ کی پٹی مسلسل غاصب صیہونیوں کے شکنجہ اور محاصرہ کا شکار تھی شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ غزہ سے کوئی راکٹ بھی فائر ہو گا؟ ان حالات میں شہید قاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی جہت فراہم کی اور اپنی دن رات کی مسلسل محنت او ر جدوجہد کے ساتھ حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدین کو اس قابل کیا کہ وہ اسرائیل کے مقابلہ میں اسلحہ کا استعمال کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے غزہ میں پتھروں سے بات آگے بڑھ گئی اور اب فلسطینیوں نے اسلحہ کا ستعمال شروع کر دیا۔ فلسطینی رہنما کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے نہ صرف فلسطین تک اسلحہ پہنچایا بلکہ انہوں نے رفتہ رفتہ فلسطینیوں کو ٹیکنالوجی اور اسلحہ بنانے کے طریقے بھی بتائے۔ ساتھ ساتھ اس قابل کردیا کہ فلسطینی اسلحہ بنانے اور استعمال کرنے لگے۔
شہید قاسم سلیمانی کی خدمات کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں ان کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کے نزدیک مسئلہ فلسطین ہمیشہ سے بنیادی اور اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ تاکید کی کہ ہمیں قدس کی آزادی کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو بے پناہ ترجیح دیا کرتے تھے۔شہید قاسم سلیمانی کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کے اتحاد سے ہی قدس کی آزادی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہر اس آواز کے دشمن تھے جو مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچائے۔
شہید قاسم سلیمانی نے اسلامی مزاحمت کے بلاک کو بنانے میں مرکزی کردارادا کیا۔ لبنان، فلسطین، یمن، عراق اور شام تک مزاحمت کی ایک پائیدار لڑی بنائی جو آج تک ثمرات عطا کر رہی ہے۔
شہید قاسم سلیمانی نے امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتوں کے عراق اور شام میں تمام منصوبوں کو ناکام بنایا۔ امریکی منصوبہ تھا کہ فلسطینیوں کو ہمیشہ کمزور رکھا جائے لیکن قاسم سلیمانی نے فلسطینیوں کو طاقتور کیا۔اس قابل بنانے میں مدد کی کہ آج غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کی مزاحمت کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔ یہ سب کچھ شہید قاسم سلیمانی کے کارناموں میں سے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شہید قاسم سلیمانی کو دھوکہ سے حملہ کیا اور شہید کر دیا۔ کیونکہ امریکہ جنگ کے میدانوں میں شہید قاسم سلیمانی کے سامنے بے بس تھا۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ سات ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بھی کامیاب نہ ہوپائے، عرا ق میں امریکی فوجی چھاؤنی میں امریکی صدر کو رات کے اندھیرے میں جانا پڑ اکیونکہ وہ عراق کی مزاحمت سے خوفزدہ تھے۔
آج فلسطین میں جاری آپریشن طوفان الاقصیٰ کی بات کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فلسطینی مزاحمت کی جانب سے جاری پائیدات مزاحمت شہید قاسم سلیمانی کے ان منصوبوں ہی کا حصہ ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں فلسطینی تحریکوں کے مابین بنائے تھے۔ ایک منصوبہ فلسطینی تنظیموں کو متحد کرنے کاتھا جس کا مظاہرہ آج ہمیں طوفان الاقصیٰ میں نظر آتا ہے۔ ایک منصوبہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کو خود مختار کرنے کاتھا جو آج ہمیں طوفان الاقصیٰ میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ پوری دنیا یہ بات جان چکی ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے طوفان الاقصیٰ کی منصوبہ بندی اور آپریشن کے آغاز اور اب تک تمام تر اقدامات کو خود انجام دیا ہے اور اس میں کسی کا کوئی بیرونی تعلق موجود نہیں ہے۔ یہی وہ خود مختاری ہے جس کے لئے شہید قاسم سلیمانی نے فلسطینی تحریکوں کو تیار کیا تھا۔ ان تک اسلحہ او ر ٹیکنالوجی فراہم کی تھی تا کہ وہ غاصب صیہونی حکومت کے مقابلہ میں اپنا دفاع کریں اور قدس کی آزادی کے لئے آگے بڑھتے رہیں۔
آج شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو چار سال بیت چکے ہیں۔ لیکن طوفان الاقصیٰ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج بھی شہید قاسم سلیمانی اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔آج صیہونی حکومت کی ذلت اور رسوائی اس بات کی دلیل ہے کہ شہید قاسم سلیمانی زندہ ہے۔مجھے یہاں پر کہنے دیجئے کہ آج اگر طوفان الاقصیٰ کامیابی کی طرف گامزن ہے تو یقین کیجئے کہ یہ اللہ کی مدد کے بعد کسی ہستی کا کردار ہے تو اس ہستی کا نام شہید قاسم سلیمانی ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کا حماس، جہاد اسلامی، حزب اللہ، حشد الشعبی سمیت یمن کے انصار اللہ اور خطے کی دیگر مزاحمتی قوتوں کے ساتھ ایک گہرا اور عمیق تعلق تھا۔ آپ نے آخری دم تک فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد نماز جنازہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے شہید قاسم سلیمانی کو شہید القدس کا لقب دیا۔ آج آپ پوری دنیا میں اور خاص طور پر فلسطینیوں کے درمیان شہید القدس کے نام سے پہچانے جاتے ہیں