تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
جنوبی افریقہ کو سفید فام نسل پرست سامراج سے نجات فراہم کرنے والے عظیم رہنما کا نام نیلسن مانڈیلا ہے۔ نیلسن مانڈیلا کو ان کی والدہ پیار سے ماڈیبا کہا کرتی تھیں۔ماڈیبا کو بچپن ہی میں پہلی مرتبہ سفید فاموں کی نسل پرستی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جن ان کو اسکول میں داخل کیا جا رہا تھا تو ان کے اصل نام کو تبدیل کر کے دوسرا نام رکھنا پڑا۔ اس موقع پر یقینا ان کی والدہ کو شدید تکلیف کا سامنا ہوا ہو گا لیکن نیلسن مانڈیلا بھی اس تکلیف کو محسوس کر گئے۔ نیلسن مانڈیلا نے جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل پرست سامراج کو شکست دے ڈالی اور سنہ1997ء میں تاریخی کلمات اداکرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نا مکمل ہے“۔ اس تاریخی جملہ نے جہاں ان کو فلسطینی عوام میں بے پناہ مقبول کر دیا وہاں ساتھ ساتھ پوری دنیا کو نیلسن مانڈیلا کی فکر اور سوچ سے آشنائی کا بھی موقع ملا۔ ان کے اس ایک جملہ نے ان کی تمام تر زندگی کی جدوجہد کو واضح کر کے رکھ دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ نیلسن مانڈیلا فقط جنوبی افریقہ کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ پوری دنیا کے مظلوموں کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے اور اپنی آزادی کو دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کی آزادی کے بغیر نا مکمل سمجھتا ہے۔
نیلسن مانڈیلا کے خیالات اور افکار سے ایہ بات واضح ہے کہ وہ صیہونیوں کے فلسطین پر غاصبانہ تسلط اور فلسطین کے خلاف صیہونیوں کی جاری نسل پرستی کے سخت خلاف تھے۔نیلسن مانڈیلا کو ستائیس سال جیل میں قید و بند رہنا پڑا لیکن وہ اپنے ارادوں سے پیچھے نہ ہٹے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتا لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی تشدد کے بدلے میں تشدد کی زبان ہی سمجھتا ہے تو پھر میں مزاحمت کے ساتھ ہوں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نیلسن مانڈیلا ہمیشہ سے ہی صیہونیوں کے مقابلہ میں فلسطینی کاز کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جنوبی افریقہ پہلے سے زیادہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاگ سخت موقف رکھتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے پڑھے لکھے لوگ، دانشور، اسکالرز، اور تمام طبقات اسرائیل کی نسل پرستی کی وجہ سے اس کے بائیکاٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
فلسطینی ہمیشہ سے ہی نیلسن مانڈیلا کو ایک خصوصی حیثیت دیتے آئے ہیں۔2013کا سال جہاں جنوبی افریقہ کے عوام کے لئے درد نا ک تھا وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لئے بھی جدائی کا داغ دے گیا اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والا ایک عظیم انقلابی رہنما نیلسن مانڈیلا کی ظاہری آواز خاموش ہو گئی او ر وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔حقیقت میں جو بات نیلسن مانڈیلا نے 1997میں کی تھی کہ ہماری آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے، آج دنیا بھر کی تمام اقوام اس بات کو محسوس کر رہی ہیں اور خود سے زیادہ غاصب صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے والے فلسطینیوں کو آزاد سمجھ رہی ہیں اور اس بات پر معتقد ہیں کہ کسی بھی قوم کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نا مکمل ہے۔
آج فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت اور جارح افواج کی جارحیت مسلسل جاری ہے اور اس جارحیت کے جواب میں فلسطینی عوام کی پائیدار مزاحمت بھی جاری ہے جس نے اسرائیل کو کئی ایک محاذو ں پر شکست سے دو چار رکھا ہے۔غاصب صیہونی حکومت امریکہ اور مغربی دنیا کی حکومتوں کی تمام تر حمایت اور مسلح مدد کے باوجود فلسطینی عوام کے جوش اور جذبہ کے سامنے ڈھیر ہو چکا ہے۔ آج نیلسن مانڈیلا جیسے قائد اور رہنما کی باتیں یاد آ رہی ہیں کہ جو تشدد کی زبان سمجھتا ہوں اسے تشدد کے ذریعہ سمجھایا جائے۔
نیلسن مانڈیلا کو جنوبی افریقہ کی عوام سے جدا ہوئے دس سال بیت چکے ہیں۔آج کا جنوبی افریقہ پہلے سے زیادہ فلسطین کاز کا حامی بن چکا ہے۔آج کے جنوبی افریقہ میں نوجوانوں سے لے کر عمر کے ہر حصہ کے لوگوں کی بڑی تعداد غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کئے ہوئے ہے۔پورا جنوبی افریقہ فلسطین کے ساتھ ہے۔
نیلسن مانڈیلا کے راستے کو ان کے پوتے نکوسی مانڈیلا نے جاری رکھا ہو اہے۔نکوسی مانڈیلا فلسطین کا زکے ایک بڑے اور سرگرم حمایتی بن کر ابھر رہے ہیں۔دنیا بھر میں فلسطین کا زکے لئے سرگرم عمل شخصیات میں آج نیلسن مانڈیلا کے پوتے نکوسی مانڈیلا صف اول میں ہیں۔نکوسی کو گذشتہ برس ہی دنیا بھر میں فلسطین کی آواز بلند کرنے پر حق واپسی فلسطین کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ نیلسن مانڈیلا نے جس جدوجہد کا آغاز جنوبی افریقہ میں کیا تھا آج وہ ایک عالمگیر آواز بن چکی ہے۔نسل پرستی کے خلاف شروع کی جانے والی نیلسن مانڈیلا کی اس جنگ میں جنوبی افریقہ تو آزادہو چکا ہے اور اب فلسطین کی آزادی کی طرف گامزن ہے۔عنقریب فلسطین بھی غاصب صیہونیوں کی نسل پرستی اور ناجائز صیہونی ریاست کے وجود سے نجات پائے گا اور ماڈیبا کا وہ جملہ مکمل ہو جا ئے گا کہ ہماری آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نا مکمل ہے۔